اسلام آباد(خبرنگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کیخلاف دائر اپیل کی جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ میں سماعت کے موقع پر درخواست گزار کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ شوکت عزیز صدیقی نے کھلی عدالت میں انکوائری نہ کرنے کا جوڈیشل کونسل کا فیصلہ چیلنج کیا تھا جسے سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا،سپریم کورٹ نے جوڈیشل کونسل کیخلاف دائرہ اختیار ہونے پر ہی فیصلہ دیا، شوکت عزیز صدیقی کے خلاف یکطرفہ انکوائری کی گئی،موقف سنا گیا نہ ان کو گواہان پیش کرنے کا موقع دیا گیا، یہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف چوتھا ریفرنس تھا،ان کے خلاف آگے پیچھے ریفرنس دائر کئے گئے ۔حکومت نے ابھی تک جواب جمع نہیں کرایا،میرے موکل 30 جون کو ریٹائر ہو جائیں گے ۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ اس کیس میں وفاقی حکومت کا جواب دینا بنتا ہی نہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ آرٹیکل 211 کے سکوپ پر دلائل دیں۔دوسری طرف جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ جس بنیاد پر درخواست قابل سماعت سمجھی گئی وہ دیکھنا بھی ضروری ہے ، سابق جج نے تقریر کی اور اس میں کی گئی باتوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا،یہاں شوکت عزیز صدیقی ملزم ہیں،ثبوت تو وہ ہیں جن کو ثابت کرنے کی بات ہو یہاں تو ریکارڈ موجود ہے ،شوکت عزیز صدیقی صاحب ذہین اور قابل ہیں،حقیقت جو بھی ہو کیا ایک جج کو پبلک فورم پر ایسی تقریر زیب دیتی ہے ،ایک حاضر سروس جج نے عوامی اجتماع میں تقریر میں چیف جسٹس اور اداروں پر الزامات لگائے ۔جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ پہلے تین ریفرنس خارج ہو گئے تھے ،موجودہ ریفرنس میں حقائق تسلیم شدہ ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا درخواست گزار کے وکیل چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بات کر رہے ہیں،انہوں نے ہمیشہ لکھی ہوئی تقریر پڑھی،کبھی الزام تراشی کی نہ ہی انہوں نے کبھی اپنی تقاریر میں آئینی حدود پار کیں، اس تقریر کو پڑھ لیں تاکہ واضح ہو جائے کس بات پر ریفرنس دائر ہوا۔عدالت نے سماعت بدھ 2 جون تک ملتوی کردی۔