شکریہ مودی، دنیا کے سامنے بھارت کا گھنائونا چہرہ بے نقاب کرنے کے لئے، شکریہ مودی، کشمیر کی تحریک کے ساتھ منافقانہ طرز عمل اختیار کرنے والوں کو شیشے میں انکا مکروہ چہرہ دکھانے کے لئے،شکریہ مودی، ہندوتوا کی ہٹلرانہ سوچ اپنانے کے لئے،شکریہ مودی، 50سال بعد اقوام عالم کو مسئلہ کشمیر عالمی امن کے لئے خطرہ ہونے کا احساس دلانے کے لئے،شکریہ مودی، تحریک آزادی کشمیر کے شہیدوں کی لازوال قربانیوں کا جواز ثابت کرنے کے لئے، ہم تو یہ سب کچھ پہلے ہی جانتے اور مانتے تھے لیکن دنیا ان باتوں کو اکثر ماننے سے انکاری رہی۔کشمیر کی جدو جہد آزادی کو دہشت گردی قرار دیا گیا ، آزادی کی خاطر لڑنے والوں کو پاکستانی قرار دے کر انکے خون کی قیمت کم کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن جب کوئی قوم آزادی کی قیمت موت سے ادا کرنے پر تیار ہو تو کوئی نہیں روک سکتا، بھارت جیسا بہت بڑا ملک بھی اور گجرات کا قصائی بھی۔ ذوالفقار علی بھٹو ساٹھ کی دہائی میں جب پاکستان کے وزیر خارجہ تھے انہوں نے بھارت کے اقوام متحدہ میں نمائندے سردار سورن سنگھ سے چھ ماہ مسلسل کشمیر کے حل کے لئے مذاکرات کئے، لال بہادر نہرو وزیر اعظم بھارت نے اس مسئلے کے باہمی مذاکرات سے پر امن حل کے لئے خود بھٹو کو نیو یارک میں ملاقات کے دوران نہ صرف یقین دلایا بلکہ با اصرار کہا کہ ہم ایٹمی تباہی کے متحمل نہیں ہو سکتے، ہمیں خطے سے غربت کو ختم کرنا ہے اور خوشحالی لانی ہے۔ حالانکہ اس وقت تک پاکستان اور بھارت کے ایٹمی طاقت بننے کا گمان بھی نہیں تھا۔بھٹو کو یقین تھا کہ کشمیریوں کو انکا جائز حق مل کر رہے گا ، دو تین سال انکو گمان تھا کہ بھارت اس مسئلے کے حل کے لئے سنجیدہ ہے لیکن جب لال بہادر شاستری نے سنگھاسن سنبھالا تو انکے رویے سے بھٹو بہت مایوس ہوئے کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر پر جاری مذاکرات کا اگلا دور ہونے کو تھا کہ پاکستان میں بھارتی ہائی کمشنر نے بھٹو کو بتایا کہ انکے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کو دل کی تکلیف ہو گئی ہے اس لئے یہ مذاکرات موخر کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اس عذر پر بھٹو کو پہلی دفعہ احساس ہوا کہ بھلے نہرو ہو یا شاستری، کوئی بھارتی لیڈر کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے پر تیار نہیں۔ انہوں نے اپنے قریبی لوگوں کو انتہائی بیزاری سے بتایا کہ جنگ کے سوا مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نہیں۔ جنگ تو جاری ہے کشمیر کے اندر بھی اور باہر بھی،پاکستان نے مقدور بھر کوشش کی کہ اس مسئلے کو خطے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیا جائے لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے نہ تو اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عملدرآمد کی کوئی صورت نکلی نہ ہی شملہ اور لاہور معاہدے کار آمد ثابت ہوئے۔بھارت نے بھی کشمیر پر کنٹرول حاصل کرنے کی تمام کوششیں کر لیں ۔ دوسری باربھارت نے آرٹیکل 370 ختم کرکے آخری حربہ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ حربہ 1963 میں نہرو نے بھی استعمال کیا تھا جب حضرت بل کی درگاہ سے رسول اکرم ﷺ کا موئے مبارک چوری ہوا اور کشمیر میں بغاوت ابل پڑی تھی۔ اس دور میں جب سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ اس قدر عام اور موئثر نہیں تھے، بھارت طاقت کے ذریعے وہاں اپنا تسلط قائم نہ کر سکا اور بالآخر اسے کشمیر کا خصوصی سٹیٹس بحال کرنا پڑا اور شیخ عبداللہ کو گیارہ سال بعد رہا بھی کرنا پڑا۔اس دور میں جب اطلاعات تک رسائی کو روکنا نا ممکن ہے بھارت کیسے کشمیر کا خصوصی سٹیٹس تبدیل کر کے آرام سے رہ سکتا ہے۔یہ قصہ اب ختم ہونے والا نہیں ہے۔اس مسئلے کے مستقل حل کے بغیر اب یہ معاملہ ختم نہیں ہو گا۔بھارت کی طفل تسلّیاں اب کسی کام نہیں آئیں گی۔دہائیوں تک انکے کٹھ پتلی رہنے والے کشمیری لیڈر بھی اب بھارت کے دام میں بظاہر آنے کو تیار نہیں ہیں۔پھراقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے ماضی کی طرح اس مسئلے پر اس بار آنکھیں بند نہیں کیں بلکہ پچاس سال بعد پھر اسے امن کے لئے خطرہ کے مسئلہ کے طور پر سنا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے اندر صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ دو ایٹمی ملکوں کے درمیان یہ مسئلہ عالمی امن کے لئے کسی وقت بھی بہت بڑا خطرہ بن سکتا ہے ، اسی لئے اقوام عالم اس بار اس مسئلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں ۔اسلامی ممالک کی تنظیم کی انسانی حقوق کی شاخ نے بھی بہت واضح انداز میں بھارت کے زیر تسلط علاقے میں ننگی جارحیت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر احتجاج کیا ہے۔بھارت کے اندر اگر ابھی تک بہت بڑا ہنگامہ نہیں ہوا تو اسکی وجہ تمام مظالم کے باوجود وہاں کی اقلیتوں کا صبر کا رویہ ہے۔ جس دن یہ اقلیتیں پھٹ پڑیں تو بھارت کو ٹکڑے ہونے سے کوئی نہیں بچا پائے گا۔اگر مودی ہندوتوا کا فروغ چاہتے ہیں تو انہیں ایک بات ضرور مدّنظر رکھنی چاہئے کہ دنیا میں بھارت واحد ہندئووں کی اکثریت پر مشتمل ملک ہے جبکہ دوسرے مذاہب پر مشتمل ملکوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔آج اگر کچھ مسلمان ملک اپنے معاشی مفادات کی خاطر بھارت کی چیرہ دستیوں کی مذمت نہیں کررہے ، یا عیسائی اکثریت والے ممالک بھارت کی کاسئہ لیسی کر رہے ہیں جس میں فرانس سر فہرست ہے ،جب انکو اس خطے کا امن خطرے میں نظر آئے گا تو پھر وہ اپنے معاشی مفادات کے لئے ہی بھارت کے خلاف صف آراء ہو جائیں گے۔وہ وقت دور نہیں جب مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھے گا، جو طوفان وہاں برپا ہونا ہے وہ ان تمام ممالک کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہو گا جو اس مسئلے کو بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس پر ایک بار پھر مودی کا شکریہ ادا کرنے کو دل چاہے گا کہ کس طرح اس نے دنیا میں چند ٹکوں کی خاطر حامی بننے والوں کو اپنے خلاف صف آراء ہونے پر مجبور کر دیا۔ اسکے لئے پیشگی شکریہ مودی۔