ہرسسٹم میں ایک ہوتی ہے حکومت اورپھرایک ہوتی ہے اسٹیبلشمنٹ جسے حالی اورشبلی کی زبان میں ہَیئتِ حاکمہ کہاجاتاہے۔حکومت میں سیاستدان بھی ہوتاہے اوربیوروکریٹ بھی۔لمبی بحث ہے کہ یہ جہاں آگئے ہم،کس نے کتنے ڈول اوربالٹیاں گنداپانی ڈالاتھا اس گندے تالاب میں۔مگریہ طے ہے کہ گھڑسوارشہبازشریف جیساہوتووہ اڑیل بیوروکریسی کی لگامیں کھینچ دیتاہے،چوہدری پرویزالٰہی ہوں تومسکرامسکراکرافسروں کوھلاشیری دیتے ہیں۔ایسے میں عثمان بزدارگھوڑے پر سوار ہو جائیںتو؟شریفین جب حکومت میں ہوتے ہیں اپنے اندازمیں حکومت کرتے ہیں۔ میٹروبس‘ اورنج ٹرین یاپھرلاہورویسٹ مینجمنٹ ۔ترکی کی ایک کمپنی سے کوڑااٹھانے کامعاہدہ ہوتاہے ۔مخلوق کہتی ہے کہ ترک کمپنی کے روح رواںترکی کے ٹاپ مین کے دامادتھے۔ایسے میں ویسٹ مینجمنٹ پہ جوگزری۔سوگزری مگراس زیاں میںایک اچھی بات یہ ہوئی کہ عثمان بزدارصاحب کوکسی کارنرسے یہ کہاگیاکہ اگراسMESSکودرست کرناہے تو امجد نون صاحب کواس ادارے کاچارج دیدیں۔ امجد نون کہنے لگے کہ میں یہ نہ کرسکوں گاکہ کہاں پرائم منسٹرانسپکشن ٹیم کی سربراہی…کہاںسفارت کاری اورپھرایک ڈسٹرکٹ کی کمانڈاورکہاں اب یہ لاہورویسٹ مینجمنٹ۔اصراربڑھاتوادارے کا کنٹرول سنبھال لیامگراس شرط کے ساتھ کہ تنخواہ کے بغیر۔جب پٹاری کھولی توچھوٹے بڑے حشرات الارض باہرآگئے۔حصہ بقدرجُثہ۔صوبے کے بہت ہی بڑے ایک افسرنے کہاکہ آپ کو قطعاًکوئی زحمت نہیں کرنی،سبھی کچھ ہم کرینگے،آپ آرام کریں،صرف دستخط کرنے ہونگے،نون صاحب کے کان کھڑے ہوگئے،اپنے نمبرٹوکی طرف دیکھا،اسکے چہرے پرمجسم بے بسی اور لاچاری نظرآئی۔رسہ کشی شروع ہوگئی۔میڈیانے کوڑے کے ڈھیردکھانے شروع کر دئیے۔ ڈیڈلاک پیداہوگیا۔اس سردگرم جنگ کی کہانی کافی طویل ہے مگرمختصراََ۔نون صاحب وزیراعظم ہائوس پہنچے اورخان صاحب کواپنااستعفیٰ پیش کر دیا۔ خان صاحب کے قریب ترین بیوروکریٹ نے نون صاحب کی شکایات پراثبات میں سر ہلایا۔ وزیراعظم نے استعفیٰ قبول کرنے کی بجائے انہیں کہاکہ آپ پنجاب کے خادم اعلیٰ سے مل لیں، معاملہ حل ہوجائیگا۔جب نون صاحب پنجاب کے سب سے بڑے آفس میں پہنچے توباہرکھڑی کریم بیوروکریسی کہنے لگی آپ ہمیںحکم کرتے، آپ اسلام آباد چلے گئے، نون صاحب بڑے صاحب کے پاس چلے گئے،ملاقات ڈھائی گھنٹے چلی،مگربے نتیجہ اوربے سود۔ویسٹ مینجمنٹ کے سربراہ اپنااستعفیٰ ٹیبل پررکھ کرسلام کرکے باہرآگئے ۔آخری جملہ سینسرکی زدمیںآتاہے۔ہرغیرسیاسی ادارے نے پوچھا کیا ہوا تھا؟ نون صاحب کہنے لگے کس کس کو بتائیں گے جدائی کاسبب ہم۔نون صاحب کے چچا فیروز خان نون وزیراعظم پاکستان تھے۔ والد صاحب بنگال کے گورنرکے اے ڈی سی تھے 1947 میں۔ طے پایاکہ آپ قائداعظم کے اے ڈی سی بن کرپاکستان جائینگے۔مگرگورنربنگال سر فریڈرک بروزکے کہنے پرفوج میں کپتانی چھوڑدی اورسیاست میں آگئے۔ انورنون صاحب نے جب1945ء میںفوج میں کمیشن لیا توجنرل ضیاء الحق بھی اسی وقت فوج میں بھرتی ہوئے۔دیرہ دھون انڈیامیں ملٹری اکیڈمی تھی ۔یہ دونوں روم میٹ اوردوست بن گئے۔وقت اپناسفرختم کرتارہااورنون صاحب سیاست میں آگئے۔1977ء میں جب جنرل ضیاء نے مارشل لاء لگایاتوچنددنوں کے بعدپرانے دوست کی یادستائی۔یہ ملاقات لاہورمیںنون صاحب کے گھرپرہوئی جنرل صاحب نے انہیں حکومت میں شمولیت کی دعوت دی ، دوستانہ مسکراہٹ کے ساتھ انورنون نے انکار کر دیا۔ جب امجدنون اپنے والدکے دوست جنرل ضیاء سے ملے توانکارنہ کر سکے اورکوچہ سیاست میں آنکلے۔اسی کوچے میں ان کی ملاقات یوسف رضا گیلانی، چوہدری نثار اور بینظیر بھٹو شہیدسے ہوئی ۔ پاکستانی سیاست کے بے چہرہ کردارنون صاحب کی شرافت اوردیانت کے قائل ہیں۔پاکستان میں سب کچھ روبہ زوال ہے۔ سیاست،معاشرت اورنوکرشاہی بھی۔ مگر نون صاحب نے شکوہ ظلمت شب کرنے کی بجائے ، اپنے حصے کی شمع جلانے کااہتمام کیا۔ان سے پہلے لاہورویسٹ مینجمنٹ صرف ایک مانیٹرنگ کمپنی تھی۔ اربوں کے ٹھیکے دیکرصرف مانیٹرکرتی تھی۔ انہوںنے آتے ہی ترکی کمپنی سے ایک گھاٹے کے ایگریمنٹ کوختم کیااورکمپنی کاپروفائل بدلنے کا عزم کیا۔تمام تررکاوٹوں اورطاقتوراعتراضات کے باوجود وہ اسے آپریشنل آرگنائزیشن بنا نے پر ڈٹ گئے۔جب ترکی کمپنی سے کوڑااٹھانے کا معاہدہ تھاتوادائیگیاںفارن ایکسچینج میںکرناپڑتی تھیں۔ محنت شاقہ کے بعدترک کمپنی سے جان چھڑائی گئی جوفنڈزبچے ان سے مشینری خریدکرکمپنی کو اپنے پائوں پرکھڑاکردیا۔ کہانی یہاں پرختم نہیں ہوتی۔سٹوری بڑی حوصلہ شکن ہے۔حیرانگی ہوتی ہے جہاں قائداعظم اور لیاقت علی خان جیسے مدبرتھے اب ان کی وارث لاٹ کیسی ہے؟بیوروکریسی کازوال اتنے کمال کاہے کہ کہاں تک سنوگے کہاں تک سنائوں اور بقول شخصے لکھتاجاشرماتاجا۔اس کہانی کے ایک کردارلاہورکے نوجوان سیاستدان اورمنسٹرسے کسی کے گھرکھانے پر ملاقات ہوگئی۔موصوف اخلاقیات پر ایسا لیکچر دے رہے تھے کہ شایدقاسم شاہ بھی نہ دے سکیں۔میزبان سے کہنے لگے ’’سراس ملک سے مافیازنہیں ختم ہو سکتے‘‘؟ میں نے کہا ’’مثلاً‘‘۔ کہنے لگے ڈاکٹرز، بیورو کریٹس، تاجران، سبھی کے اپنے اپنے پریشر گروپس ہیں۔ ہم کوئی بھی قدم اٹھائیں یہ حرکت میں آجاتے ہیں۔ بلیک میل کرتے ہیں۔وہیں ٹیبل پر ایک ایماندارسرکاری افسرتشریف فرماتھے۔وہ خاموش رہے۔ کچھ نہ بولے۔شایدمنظورتھاپردہ تیرا۔ منسٹر کے جانے کے بعدان سے پوچھاگیا،آپ کوئی تبصرہ نہیں کرینگے،جویہ نوجوان سیاستدان کہہ کر گیا ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگے،اتفاق سے یہ میراکلاس فیلوہے۔میرے اثاثے بڑھ نہیں رہے اوراسکے اثاثے بڑھنے سے رُک نہیں رہے۔میں بیوروکریسی کے کچھ نااہل اورکچھ کرپٹ لوگوں کا اقرار کرتاہوں مگر اس جیسے سیاستدان اپنے خاندانی ذرائع کی وجہ سے خودمافیابن گئے ہیں۔ اعدادو شمار کہتے ہیں کہ پاکستان کا ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا ہے۔ ایک عام آدمی کا چھوٹا سا دل ہوتا ہے اور چھوٹی سی آشا۔ چھوٹا سا گھر ۔۔۔ بچوں کیلئے تعلیم ، صحت کی ضمانت اور ایک ایسی زندگی جس میں معاش کی تلوار ہر وقت سر پہ نہ لٹکتی رہے۔ مگر یہاں عام بندے کو یوں لگتا ہے کہ ’’عمراں لنگھیاں پباں پار‘‘۔ اس بدبو دار سسٹم کی لاش سے تعفن اُٹھ رہا ہے۔ اس نظام کا نوحہ کہنا آسان ہے۔ ماتم اور سینہ کو بی بھی پرانی رسم ہے۔ آئیے ملکر اس حنوط شدہ ممی کو دفن کر دیں اور حکمران طبقہ سے درخواست کریں کہ مزید اسے نوچنا بند کر دیں۔