عالمگیر بھائی چارے، برادرانہ جذبے ،اخوت (Global Fraternity)کے فروغ کے لیے کیتھولک مسیحیوں کے مذہبی پیشوا اور عالمِ عیسائیت کی سب سے بڑی شخصیت پوپ فرانسس"Pope Francis"اور دنیائے اسلام کی عظیم دانشگاہ جامعۃ الازہر کے سربراہ الدکتور الشیخ احمد الطیب ،گزشتہ ہفتہ ابوظہبی تشریف فرما ہوئے اور یہاں پر منعقدہ اس عالمی کانفرنس میںبھی شرکت کی ،جس میں دنیا بھر سے پنڈت ، پادری ، علماء ، مذہبی سکالرز سمیت تمام مذاہب کی دینی اور روحانی شخصیات شریک تھیں ، اس اجتماع کا بنیادی مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا تھا کہ لوگوںکے درمیان فاصلے اس وقت تک کم نہیں ہوسکتے ،جب تک مذاہب کے درمیان مفاہمت اورمصالحت کی فضا پیدا نہ ہو ، اس موقع پر پوپ فرانسس اور شیخُ الازہر کا معانقہ ، پُر جوش مصافحہ اور روایتی بوسہ۔۔۔ مذاہب اورادیانِ عالم کی سچائیوں پر اعتماد اور اعتقاد رکھنے والوں کے لیے خوش کنُ اور خوشگوار تھا ۔ یہاں پر جامعۃُ الازہر مصر اور ویٹی کن کے درمیان انسانی اخوت و بھائی چارے کے فروغ اورباہمی تنازعات کے خاتمے اور معاشرے سے غربت کی بیخ کنی جیسے مسائل کی بابت ایک یادداشت پر دستخط بھی ہوئے ۔ پوپ فرانسس نے کہا کہ خدا کے نام پر نفرت اور تشدّد کا کوئی جواز نہیں ،انہوں نے رواداری اور انسان دوستی کے فروغ کے لیے تعلیمی اقدار کی ترویج پر زور دیا۔ شیخ الازہر ڈاکٹر احمد الطیب نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ مشرقِ وسطی میں مسیحیوں کا تحفظ کریں ، اسی طرح انہوں نے مسیحیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس قوم کا حصہ ہیں، آپ اقلیت نہیں ہیں ۔ جامعۃ الازہر اور ویٹی کن کے درمیان انسانی بھائی چارگی کی یادداشت پر دستخط کو ایک تاریخ ساز اور یاد گار لمحہ قرار دیا جارہا ہے، امریکی وزیر خارجہ نے ایک ٹویٹ کے ذریعہ پوپ کے موجودہ دورے کو دنیا کے دو عظیم مذاہب کے درمیان امن اور مفاہمت کے فروغ کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام کی طرح عیسائیت بھی ایک عالمگیر مذہب، اور اُس کی تعلیمات ایسی آفاقی اور ہمہ گیر ہیں، جس نے تہذیب وتمدن کی بنیاد رکھی اور انسانوں کو بلند اخلاقی اقدار سے روشناس کروایا۔ (اگرچہ یہ سوال اپنی جگہ کہ موجودہ اور مروّجہ عیسائیت کیا واقعی اُسی دین اور الہامی تعلیمات کو اپنائے ہوئے ہے،جنہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا ، یا اس میں بنیادی اور جوہری تبدیلیاں واقع ہوچکی ہیں ) بہر حال باہمی مفاہمت ،رواداری ،انسان دوستی ،تحمل، برداشت اوربالخصوص بین المذاہب مکالمے کی ترویج کے حوالے سے ان الہامی مذاہب کی تعلیمات ،انسانیت کے لیے ہمیشہ مینارئہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں ۔قرآن نے اہلِ کتاب سے مکالمہ اور مجادلہ کے وقت بھی تہذیب وشائستگی کی تلقین فرمائی اور یہاں تک کہ ’’زمانہ جنگ‘‘میںبھی معبد ، چرچ اور کلیسا کے تحفظ ، پوپ اور راہب کی حفاظت کو یقینی بنایا ، بلکہ بعض معاہدات کی رُو سے تو اسلامی سلطنت میںقائم کلیسائوں کی حفاظت ،تعمیرات اور ان کی "Maintenance" کی بھی ذمہ داری قبول کی ۔ متحدہ عرب امارات کے صدر الشیخ خلیفہ بن زید النہیان نے خطے میںپُر امن بقائے باہمی کی ترویج اور گزشتہ تلخیوں کے ازالے کے لیے سال 2019ء کو "عامُ التسا مُح"’’یعنی در گذر کا سال‘‘ قرار دیا ہے ۔متحدہ عرب امارات شاید دنیا کا واحد خطہ ہے، جہاں تمام مذاہب، خطوں ،نسلوں اور ممالک کے لوگ مقیم ہیں ، جس میںایک رپورٹ کے مطابق صرف ابو ظہبی میں 5لاکھ عیسائیوںکے علاوہ پورے خطّے میں ان کی کثیر تعداد کے ساتھ27 لاکھ ہند و اور10 ہزار فلپینی رہائش پذیر ہیں ،بایں وجہ اس خطے میں اب بیسیوں مندر ، چرچ اور گردوارے موجود ہیں، علاقے کے سب سے بڑے مندر کی تعمیر کے لیے ، دو برس قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو متحدہ عرب امارات کے دورے کے موقع پر20 ہزار مربع میٹر ز زمین تحفۃً پیش کی گئی ۔ اسی طرح حالیہ کانفرنس میں بھی ایک بہت بڑ ے چرچ کی تعمیرکااعلان ہوا ۔ قبل ازیں پوپ فرانسس 2017ء میںمصر کا دورئہ بھی کرچکے ہیں ۔ چونکہ مصر میں عیسائیوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے اور وہاں کے آئین کے مطابق بعض اہم عہدوں پر بھی عیسائی متمکن ہوتے ہیں ، وہاں پر باہمی رواداری کو مزید مؤثر بنانے کے لیے پوپ فرانسس کی آمد کے دوررس اور مثبت اثرات سامنے آئے ،اسی تجربے کو دیکھتے ہوئے ،شیخ محمدبن زاید النہیان ،جو امارات کی فوج کے سپریم کمانڈر بھی ہیں ،نے اس اہتمام کو ضرور ی جانا اور پوپ نے بھی یہاں کے دور ے کو ترجیح دی ،اس لیے کہ اس وقت متحدہ عرب امارات میں دنیاکے تمام مذاہب آزادانہ طور پر زندگی گذار رہے ہیں، مذہبی ہم آہنگی اور امن وامان کی فضا مستحکم ہے ، دہشت گردی کا خطرہ نہیں ،اور یہ سرزمین باہر سے آنے والوں کے لیے اپنے دامن کو ہمہ وقت وَا کیے ہوئے ہے ،جس کے سبب دنیا کا سب سے بڑا ’’کثیر القومی ‘‘معاشرہ یہاں تخلیق پا رہا ہے۔مزید براں متحدہ عرب امارات کے سربراہ نے اس خطہ کو "دولۃُ التسامُح اور ارض التسا مُح"یعنی’’در گذر کرنے اور معافی دینے والی سرزمین‘‘ سے موسوم کیا ہے، مزید یہ کہ حکومت نے ایک محکمہ "وزارت التسا مُح"بھی قائم کردی ہے ، تاکہ یہاں کثیر تعداد میں بسنے والے افراد جن کا تعلق دنیا کی مختلف تہذیبوں اور مذاہب سے ہے ،باہمی اتفاق اور محبت سے رہیں اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور آپس میں بہترین تعلقاتِ کار قائم کر سکیں۔متحدہ عرب امارات میں منعقدہ اس بین المذاہب کانفرنس ،جس میں دنیا بھر سے 700سے زائد جلیل القدر مذہبی زعما نے بطور خاص شرکت کی ،نے عالمی سلامتی ،رواداری اور انسان دوستی کے فروغ کے حوالے سے مذاہب اور ادیان کے کردار کو اجاگر کیا ، اس موقع پر بالخصوص ان دونوں شخصیات نے متحدہ عرب امارات کی سب سے بڑی مسجد کی ایک ساتھ زیارت کی اور متحدہ عرب امارات کے بانی الشیخ زاید بن سلطان کے مقبرہ پر بھی گئے ،جہاںمرحوم کی روح کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کا اہتمام ہوا۔پوپ فرانسس اور شیخ الازہر کے مذکورہ دورے اور متحدہ عرب امارات کی حکومت کے مختلف اقدامات کو دنیا بھر کے میڈیا نے نمایاں مقام دیا اور خطّے کی مجموعی صورتحال اور پڑوسی ریاستوں کے ساتھ بہتر تعلقات کے فروغ کی بھی توقع کی ۔ یہاںیہ امر قابلِ ذکر ہے کہ شیخُ الازہر ڈاکٹر احمد طیب ، جو قبل ازیں’’ رئیس جامعۃالازہر‘‘ بھی رہ چکے ہیں ،2010ء سے اس عظیم اور اہم منصب پر فائز ہیں ، اس سے پہلے آپ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ’’ فیکلٹی آف اصول الدین‘‘ کے ڈین کے طور پر بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ شیخ الازہر عربی کے ساتھ ساتھ انگلش اور فرنچ بولنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں ، آپ فرانس کی Sorbonne University میںبھی زیر تعلیم رہے ۔آپ کے بڑے بھائی الشیخ محمد طیب مصر میں طریقہ تصوف "خَلوتیہ"کے سربراہ ہیں۔