لاہور ہائی کورٹ نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی اقبال آشیانہ ہائوسنگ سوسائٹی اور رمضان شوگر ملز کیسز میں ضمانت منظور کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا حکم دیا ہے۔ بدقسمتی سے نیب اب تک کسی ایک طاقتور بدعنوان کو سزا نہیں دلوا سکا‘ لے دے کر نیب کی کارکردگی پلی بارگینگ تک ہی محدود دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے سپریم کورٹ نے بھی متعدد بار نیب کی کارکردگی پر نہ صرف تحفظات کا اظہار کیا بلکہ کرپشن معاف کروا لو کے ریمارکس دیے گئے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ چیئرمین نیب کے دور میں نیب کی کارکردگی میں قدرے بہتری آئی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ نیب کے اہلکاروں کی اکثریت کی تعیناتیاں سابق حکومت کے مختلف ادوار میں ہوئی ہیں اس لئے نیب میں سابق حکمرانوں سے ہمدردی کے امکان کو یکسر رد نہیں کیا جا سکتا بعض حلقوں کی طرف سے سابق وزیر اعلیٰ کی ضمانت کے حوالے سے بھی اسی خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ممکن ہے نیب کے کچھ اہلکاروں نے مقدمات میں دانستہ قانونی سقم چھوڑے ہوں۔ گو نیب نے رہائی کے فیصلے کی سپریم کورٹ میں اپیل کا عندیہ دیا ہے۔ بہتر ہو گا چیئرمین نیب اس حوالے سے اپنے قانونی ماہرین کے دلائل اور کیس کی پیروی کا خود جائزہ لیں اور اگر نیب حکام کی طرف سے قصداً نرمی کا کوئی پہلو سامنے آئے تو ذمہ داران کے خلاف کارروائی کریں۔ اس کے علاوہ نیب وکلاء کی ٹیم بھر پور تیاری کو بھی یقینی بنایا جائے تاکہ مقدمات میں قانونی خامیوں کے باعث مجرموں کی رہائی ممکن نہ ہو سکے۔