آپ کا اسم گرامی’ قطب الدین ‘ہے ،آپ حسینی سادات سے ہیں،’ بختیار‘ لقب آپ کواپنے مرشد گرامی کی بارگاہ سے عطا ہوا۔’اوش‘ آپ کا مقامِ ولادت ہے ۔ آپ نے اتنی بار آستین سے کاک نکال کر عقیدت مندوں کو کھانا کھلایا کہ آپ کاکی کے لقب سے مشہور ہو گئے ۔ (سبع سنابل)کاک: روغنی ٹکیہ یا روٹی جو گھی میں بغیر پانی کے گوندھ کرپکائی جاتی ہے ۔کتب سوانح میں آپ کی ولادت کے مختلف اقوال پائے جاتے ہیں۔ عمر مبارک ایک سال ہی تھی کہ والد گرامی کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔(سفینۃ الاولیا ئ) تربیت کی تمام ذمہ داری آپ کی والدہ پر آ گئی۔ آپ کی عمر جب چار سال، چار ماہ ہوئی تو ایک بزرگ آپ کو ابو حفص یا ابو جعفر نامی ایک بزرگ کے پاس لے گئے اور ان کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا:’’یہ مبارک بچہ ایک دن اولیائے کبار میں شمار ہوگا، اس کو نہایت شفقت و محبت سے کلام اللہ کی تعلیم دیجیے ، استاذ نے بزرگ کے جانے کے بعد پوچھا: بیٹا! تم جانتے ہو یہ کون بزرگ تھے ؟ آپ نے فرمایا: نہیں، تو استاذ نے آپ کو بتایا: یہ خضر علیہ السلام تھے جنھوں نے تمھیں میرے حوالے کیا ہے ۔ سبحان اللہ!‘‘ یہیں آپ نے علوم ظاہری و باطنی حاصل فرمائے ۔’’سبع سنابل‘‘ کے مطابق آپ کی والدہ نے آپ کو تعلیم کے لیے خواجہ غریب نواز چشتی اجمیری کی خدمت میں پیش کیا، آپ نے تختی پر کچھ لکھ کر دینے کا ارادہ فرمایا تو ندا آئی ’’ٹھہریے ! اس بچے کو تعلیم قاضی حمید الدین ناگوری دیں گے ۔‘‘ خواجہ صاحب رک گئے ، قاضی حمید الدین ناگوری تشریف لائے اور آپ سے پوچھا:تختی پر کیا لکھوں؟ آپ نے پندرھویں پارے کی پہلی آیت لکھنے کی درخواست کی، قاضی صاحب نے حیرانی سے وجہ پوچھی تو عرض کیا: والدۂ ماجدہ کو آدھا قرآن مجید یاد تھا، جب میں ان کے پیٹ میں تھا وہ اس کی تلاوت فرمایا کرتی تھیں، میں جو کچھ سنتا اللہ کریم کی مدد سے حفظ کر لیتا۔ سبحان اللہ! آپ علیہ الرحمہ کو قاضی صاحب نے صرف چار(4) دن میں قرآن مجید مکمل حفظ کرا دیا۔(سبع سنابل) آپ نے کم عمری میں ہی تمام مروّجہ علوم میں خوب مہارت حاصل کر لی، اس کے بعد بغداد شریف کی طرف سفر فرمایا، اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ سے بیعت کا شرف حاصل کیا۔ شیخ شہاب الدین سہروردی سمیت کئی بزرگوں سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور ان کی صحبت میں مجاہدات فرماتے رہے ، واپس آ کر آپ ملتان تشریف لائے اور شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی سے ملاقات کی، انھوں نے آپ کا شاندار استقبال کیا اور ضیافت کی، آپ نے فرمایا: بہاء الدین! ضیافت تو کی ہے لیکن خشک ضیافت کی، لہٰذا اُنھوں نے سماع کا انتظام کیا۔ ملتان ہی میں آپ سے بابا فرید الدین گنج شکر نے ملاقات اور بیعت کی۔پھر آپ دہلی واپس تشریف لے آئے ۔ خواجہ غریب نواز کبھی خط و کتابت کے ذریعے تربیت فرماتے اور کبھی دہلی تشریف لے آتے ۔ جس وقت بادشاہ نے خواجہ قطب الدین علیہ الرحمہ کو شیخ الاسلام کا منصب دینا چاہا، مگر آپ نے انکار کر دیا، تو سلطان نے منصب آپ کے پیر بھائی اور دوست نجم الدین صغری کو عطا کر دیا،اور یہ منصب ملنے کے بعد اُنھوں نے دیکھا کہ لوگ خواجہ قطب الدین سے محبت کرتے ہیں، مجھ سے نہیں، تو ان کے دل میں آپ کے لیے حسد پیدا ہو گیا اور آپ سے جو دوستی کا تعلق تھا وہ ختم کر دیا، اب خواجہ معین الدین چشتی اجمیری آپ کے پاس دہلی آئے تو نجم الدین صغری ملاقات کے لیے نہ آئے ، چند روز بعد خواجہ غریب نواز خود نجم الدین صغری سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے تب بھی انھوں نے نہ توجہ دی اور نہ ہی استقبال کیا، خواجہ غریب نواز نے اس برتاؤ پر خفا ہوتے ہوئے فرمایا:نجم الدین! تجھ پر ایسی کیا بلا ٹوٹ پڑی کہ شیخ الاسلامی کے نشہ میں انسانیت سے بھی گزر گیا اور پرانی دوستی کو اچانک ختم کر ڈالا؟یہ سن کر نجم الدین صغری نے سر آپ کے قدموں میں رکھ کر معذرت کی اور کہنے لگے : میں اب بھی آپ کا مخلص ہوں، لیکن قطب الدین نے میری قدر و منزلت برباد کر دی ہے ۔ جب سے وہ یہاں آیا ہے مجھے کوئی نہیں پوچھتا! آپ نے تبسم فرما کر کہا: تو اطمینان رکھ، میں اس تیرے دل کے بوجھ کو اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ یہ کہہ کر وہاں سے روانہ ہو گئے ، نجم الدین ضیافت کے لیے کہتے رہے ، مگر آپ نے قبول نہ فرمائی اور واپس تشریف لے گئے اور دہلی سے اجمیر جانے لگے تو خواجہ قطب الدین کو ہمراہ لے کر چل پڑے ۔ اہل دہلی کو اس اطلاع کا ملنا تھا کہ آناً فاناً تمام شہر خواجہ کے قدموں میں جمع ہو گیا اور سب منت سماجت کرنے لگے کہ قطب صاحب کو دہلی سے نہ لے جائیے ، سلطان کو خبر پہنچی تو وہ بھی حاضر ہو گیا۔ سلطان کی درخواست پر بالآخر آپ یہ فرما کر اجمیر روانہ ہو گئے :’’بابا قطب الدین!میں نے اس شہر کو تمھارے حوالے کیا، تمھارے جانے سے شہر والے بے قرار ہیں، میں اتنے لوگوں کا دل تمہاری جدائی سے کباب نہیں بنانا چاہتا‘‘(سفینۃ الاولیائ) آپ نے دو شادیاں فرمائیں، پہلی آپ کی والدہ نے کرائی، روزانہ آپ تین ہزار مرتبہ درودِ پاک پڑھتے تھے ، اس شادی کی وجہ سے تین دن نہ پڑھ سکے ۔تو ایک شخص کو خواب میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زیارت ہوئی، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلام آپ تک پہنچا کر تین دن سے ہدیۂ درود نہ بھیجنے کی وجہ پوچھی، تب آپ نے اس بیوی سے علیحدگی اختیار کر لی۔ دوسری شادی دہلی میں ہوئی، جس سے اللہ کریم نے آپ کو دو بیٹے عطا فرمائے ۔ دونوں آپ کے ساتھ ہی مزار کے احاطہ میں دفن ہیں۔(جانشین غریب نواز) خواجہ معین الدین چشتی اجمیری فرماتے ہیں کہ مجھے بارگاہِ ذوالجلال سے ارشاد ہوا:قطب الدین بختیار کاکی کو گدڑی پہنا کر خلافت دے دو۔اس لیے کہ وہ میرا محبوب اور میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوست ہے ۔یہی مجھے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا۔چنانچہ خواجہ قطب الاقطاب کو دہلی میں خاصا عرصہ گذر چکا تو مرشد گرامی کی بارگاہ میں حاضری کی اجازت طلب کی، اجازت کے بعد اجمیر حاضر ہوئے ، خواجہ غریب نواز نے کچھ نصیحتیں کر کے خلافت، سجادگی کا پروانہ، اور خواجگانِ چشت کے تبرکات عطا فرمائے ، پھر یہ دعا دے کر دہلی روانہ کر دیا: بابائے مَن! میں نے تجھے اللہ کے سپرد کیا اور عزت کے مقام پر پہنچایا، جہاں جاؤ خیریت سے رہو، مردِ کامل اور اللہ والے بنو! (سبع سنابل) آپ کے دہلی واپس آنے کے بیس روز بعد خواجہ غریب نواز کا وصال ہو گیا۔ مرشد کے وصال کے بعد آپ خلقِ خدا کو فیض یاب فرماتے رہے حتی کہ خالقِ کائنات سے جا ملے ۔ آپ کا وصال ۱۴ ربیع الاول، ۶۳۵ھ بروز سوموار کو عین محفلِ سماع میں تب ہوا جب قوال نے شیخ احمد جام علیہ الرحمہ کی غزل کا یہ شعر پڑھا: کُشتگانِ خنجرِ تسلیم را ہر زمان از غیب جانِ دیگراَ ست (دیوانِ حضرت احمد جام:۲۴) اس شعر پر آپ وجد میں آگئے ، کھڑے ہو کر نعرہ مارنا چاہتے تھے کہ قاضی حمید الدین نے منہ پر ہاتھ رکھا اور کہا:’’دنیا جلانا چاہتے ہو؟‘‘ آپ خاموش ہو گئے اور تمام بدن محبت الہٰی کی آگ میں جل گیا۔ (سبع سنابل) وصال کے بعد آپ کا جنازہ دہلی کے وسیع میدان میں لایا گیا، مولاناابو سعید علیہ الرحمہ نے وصیت سنائی کہ آپ نے بوقتِ وصال فرمایا ہے : میرا جنازہ وہ پڑھائے جس کی فرضوں کی تکبیر اولیٰ کبھی قضا نہ ہوئی ہو، نہ کبھی اس کی عصر کی سنتیں قضا ہوئی ہوں اور نہ اس نے کبھی زنا کیا ہو۔مجمع پر سناٹا چھا گیا، خاصی دیر گزر نے کے بعد ایک شخص آگے بڑھا اور کہا: میں چاہتا تھا کہ یہ بات کبھی لوگوں کو پتا نہ چلے ، لیکن حضرت کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے آپ کا جنازہ پڑھا رہا ہوں۔ جنازہ پڑھانے والا یہ شخص وقت کا بادشاہ اور آپ کا مریدِ خاص سلطان شمس الدین التمش تھا۔آپ کے مزار کی تعمیر اس زمین میں کی گئی جس کو آپ نے اپنی قبر کے لیے خود خریدا تھا۔ اللہ کریم ان پر رحمت فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔