معزز قارئین!۔ 10 دسمبر کو ملک بھر میںہفتہ وار تعطیل تھی لیکن، وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس منعقد ہُوا اور وہ بھی پورے نو (9) گھنٹے تک۔ اجلاس کیا تھا؟ سارے وزراء کا امتحان تھا۔ چونکہ اقتدار میں آنے کے بعد وزراء کا پہلا امتحان تھا اِس لئے وزیراعظم صاحب نے سب کو "Pass" کردِیا۔ ہمارے یہاں رواج ہے کہ جب کوئی فلم سینما گھروں کے لئے "Release" ہوتی ہے تو اخبارات میں اُن کے اشتہار کے اوپر لکھا ہوتا ہے کہ "Censor Board" نے بخوشی پاس کردِیا۔وزراء کا امتحان تحریری (Written) نہیں تھا بلکہ زبانی (Oral) ۔ تحریری امتحان میں طلبہ کے لئے نقل مارنے کی گنجائش ہوتی ہے لیکن زبانی امتحان میں ہر گز نہیں ہوتی۔ کوئی وزیر رفیق (Mate) وزیر کی نقل نہیں کر (مار) سکتا ۔ خبروں کے مطابق ’’ جنابِ وزیراعظم نے 26 وزارتوں ( وزیروں کی کارکردگی) کا جائزہ لِیا، انہیں کرپٹ عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی ۔ بعض وزراء کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم صاحب نے وزراء سے 5 سالہ منصوبے بھی مانگ لئے۔ کہا گیا کہ ’’ ہر تین ماہ بعد وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لِیا جائے گا‘‘۔ گویا علاّمہ اقبالؒ کے انداز میں تنبیہ کی کہ … ابتدائے عشق ہے ، روتا ہے کیا؟ آگے آگے ، دیکھئے، ہوتا ہے کیا؟ وزیراعظم کی طرف سے وزیر مملکت مراد سعید کو وفاقی وزیر بنانے کی خوش خبری دِی گئی۔ فیصل واوڈا کی خواب واہ ، واہ کی گئی ، شاہ محمود قریشی اور کئی دوسرے وزراء کو شاباش دِی گئی لیکن وزیر ریلوے شیخ رشید احمد تو، سب ساتھیوں پر بازی لے گئے۔ دراصل شیخ رشید احمد کا تو مسلم لیگ (ن) ،’’ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز‘‘ (پی۔ پی۔ پی۔ پی) کے قائدین سے مقابلہ تو جان جوکھوں کا ہوگا ۔ اُستاد شاعر بحرؔ لکھنوی کے شعر میں اگر لفظ محبتؔ کے بجائے سیاستؔ جڑ دِیا جائے تو شیخ صاحب کی طرف سے یوںکہا جاسکتا ہے کہ … اب تو شطرنج سیاستؔ میں لگی ہے بازی! جان پر کھیل رہا ہُوں ، مجھے ڈر کچھ بھی نہیں! خبروں کے مطابق ’’ شیخ رشید احمد کو بہترین ؔ قرار دِیا گیا تو اُن کے ساتھی وزراء نے ’’ ڈیسک بجا بجا کر‘‘ انہیں خراج تحسین پیش کِیا ۔معزز قارئین!۔ ہمارے یہاں سینٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں حکومت اور حزبِ اختلاف کی پارٹیوں کی طرف سے قیامِ پاکستان میں سے اپنے قائدین کی تقریروں سے خوش ہو کر ، اُن کے حق میں ڈیسک، بجانے کا رواج ہے لیکن، وفاقی کابینہ میں پہلی بار ۔ مَیں نے 1960ء میں ’’ مسلک صحافت‘‘ اختیار کِیا اور مَیں ہر دَور میں ’’ ڈیسک بجانے‘‘ کے فن کو ’’ ڈیسک نوازی‘‘ میں لکھتا ہُوں ۔ دُنیا کی (خاص طور پر ) پاکستان میں پہلا ( پہلی) ڈیسکؔ نواز کون تھا /تھی؟۔مجھے نہیں معلوم۔ جب بانسری (نَے) بجانے والے کو ’’ نَے نواز‘‘ طبلہ بجانے والے کو ’’ طلبہ نواز‘‘ اور سارنگیؔ بجانے والے کو ’’ سارنگی نواز، کہا جاتا ہے تو ڈیسکؔ بجانے والے کو ’’ ڈیسک نواز‘‘ کیوں نہیں کہا جاسکتا۔ علاّمہ اقبالؒ نے پُر سوز شعر کہنے پر اپنے بارے میں کہا تھا کہ … میرے کام کچھ نہ آیا ، یہ کمالِ نَے نوازی! شیخ رشید احمد سے میرا تعارف 1985ء سے ہے ۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دَور میں شیخ رشید احمد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات تھے ۔جب اُن کی قیادت میں اگست 1991ء میں سینئر صحافیوں کی "Eleven" ( 11 اصحاب) جن میں مَیں بھی شامل تھا ۔ عوامی جمہوریہ چین کے دورے پر گئی ۔ پھر اُن سے میری ملاقاتوں کا باقاعدہ اور بے قاعدہ سلسلہ جاری رہا ۔ دراصل میری اور اُن کی مصروفیت آڑے آتی رہی / ہے۔ اسلام آباد میں ہر سال یکم رمضان اُلمبارک کو میری اور شیخ صاحب کی ملاقات کا کریڈٹ انفارمیشن گروپ کے سینئر رُکن اور سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات سیّد انور محمود کو جاتا ہے کہ موصوف دو اڑھائی سو دوستوں ، سابق وزرائے اطلاعات و نشریات ، انفارمیشن گروپ اور دوسرے شعبوں کے ( ریٹائرڈ اور حاضر سروس بیورو کریٹس اور سینئر صحافیوں ( خواتین و حضرات) کو مہمان بنانے کی شاہ خرچی ؔکے اِس لئے متحمل ہیں کہ ، ریٹائرمنٹ کے بعد اُنہوں نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مسائل حل کرنے کے لئے "Consulting and Advocacy" کا ایک ادارہ قائم کررکھا ہے ۔ جِس میں کئی ریٹائر سِول اینڈ ملٹری بیورو کریٹس خدمات انجام دے رہے ہیں۔ شیخ صاحب مجھ سے اور تقریب کے شرکاء سے بھرپور جپھّی ڈالتے ہیں۔ پھر اُن سے میری اور شُرکاء کی دوستی مزید ایک سال کے لئے پختہ ہوجاتی ہے۔ مَیں شیخ صاحب کی پاکستان عوامی مسلم لیگ کو ’’یکتارا‘‘پارٹی کہتا ہُوں ۔ یکتارا ؔایک تارکے سِتارؔ کو کہتے ہیں ۔ شیخ صاحب اپنی ذات میں انجمن ہیں ۔ وہ جب بھی اپنے کسی سیاسی مخالف کے خلاف جگت بازی کرتے ہیں تو، اُسے اپنی ’’ ہلکی پھلکی موسیقی‘‘ کہتے ہیں ۔ شیخ صاحب کے حوالے سے ’’لال حویلی ‘‘ پاکستان کی واحد حویلی ہے ، جس کی دُھوم دُور ، دُور تک ہے۔ ایک بارتو، شیخ صاحب کی ’’ہلکی پھلکی موسیقی ‘‘سے متاثر ہو کر مَیں نے اپنے لاکھوں ؔساتھیوں سمیت پاکستان عوامی مسلم لیگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلِیا تھا ۔ پھر میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘ ‘ نے مجھے سمجھایا کہ ’’ یار اثر چوہان! اگر تُم اور تمہارے لاکھوں ساتھی کسی روز لال حویلی چلے گئے تو ، شیخ صاحب کے لئے تو، بہت بڑا مسئلہ پیدا ہو جائے گا‘‘۔ پھر مَیں سمجھ گیا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دئیے جانے کے بعد ، یکم اگست 2017ء کو قومی اسمبلی میں قائدِ ایوان (وزیراعظم ) کا انتخاب تھا ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن ) کے امیدوار شاہد خاقان عباسی نے 221 ووٹ حاصل کئے ۔ ’’ پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ کے امیدوار سیّد نوید قمر نے 47 لیکن ، پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کی حمایت سے شیخ رشید احمد نے 33 ووٹ حاصل کئے۔ اِس پر 3 اگست 2017ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ شیخ رشید احمد کی ۔ شکتِ فاتحانہ!‘‘۔ مَیں نے حوالے کے لئے اُستاد شاعر جگر مرؔاد آبادی کا یہ مصرعہ بھی لکھا تھا کہ … تجھے اے جگر مُبارک ، یہ شکست فاتحانہ! معزز قارئین!۔ یہ واقعہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ’’ 24 جنوری 2017ء کو متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین ’’پنڈی وال ‘‘صدیق اُلفارق نے شیخ صاحب کو دھمکی دِی تھی کہ ’’ اگر آپ نے فوری طور پر لال حویلی خالی نہ کی تو، آپ کے خلاف "Grand Operation" کِیا جائے گا ‘‘۔ اِس پر ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے راولپنڈی میں شیخ صاحب کی ایک ہم عُمر (Fan) خاتون کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہُوئے کہا تھا کہ … تَینوں ٹی ، وی ، تے ویکھاں تے نچّاں وانگ مَلنگاں! مَیں نئیں ڈردی، صدِیق فارق توں ، جَد چھنکاواں وَنگاں! خُود کُش حملہ آور ، نہ بن ! کہندَیاں تَینوں سَنگاں! ’’ لال حویلی والڑیا ، مَیں تیریاں خَیراں مَنگاں! ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے تو، پنجاب کے گائوں کی ایک الہڑ مٹیار کی طرف سے اپنی سُریلی آواز میں گایا ہُوا یہ ماہِیا بھی شیخ صاحب کو پہنچایا تھا کہ … بن جا میرا بیلی ماہِیا ہسّدی وَسّدی رَہوے تیری لال حویلی ماہِیا معزز قارئین!۔ 9 دسمبر اور 12 دسمبر کو ’’عارفین برادران‘‘ ۔سیّد ارشاد احمد عارف اور عارف نظامی نے اپنے اپنے کالم میں وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے حوالے سے شیخ رشید احمد کے لئے ’’کلماتِ خیر‘‘ لکھے ہیں تو، مَیں کیوں اُن سے پیچھے رہوں؟۔ شیخ رشید احمد کی تو، وزیراعظم عمران خان سے گہری دوستی ہے لیکن، حوالے کے لئے دیکھئے کہ ’’ جنابِ آصف علی زرداری نے (پہلے ) چودھری برادران کی پاکستان مسلم لیگ کو ’’ قاتل لیگ‘‘ قرار دِیا لیکن، پھر نظریۂ ضرورت کے تحت اُنہوں نے چودھری پرویز الٰہی کو "Deputy Prime Minister"بنوا دِیا ۔ تین دِن سے مَیں تو ، اپنے تصّور میں شیخ رشید احمد کو"Deputy Prime Minister" کی حیثیت سے دیکھ رہا ہُوں۔ میرا وجدان کہتا ہے کہ ’’بہت جلد پورے پاکستان میں نہ سہی راولپنڈی میں ( خاص طور پر لال حویلی کے ارد گرد ) یہ نعرے گونج رہے ہوں گے کہ … شیخ رشید ،آوے اِی آوے!