وہ ایک چھوٹی پارٹی کا بڑا سیاست دان ہے،کہنے والے اس پرتانگہ پارٹی کی پھبتی کستے ہیں اسے کوچوان کہتے ہیں لیکن وہ برا نہیں مناتا جوابا کہتا ہے تم لوگوں کی باراتوں سے اچھا یہ تانگہ نہیں جومجھے اقتدار کی شاہراہ پر تو لے آیا،دھیمی چال سے ہی سہی چلتا تو دکھائی دے رہاہے بات غلط بھی نہیںایک شہر اور ایک سیٹ کی پارٹی کے اس سیاستدان کے پاس سالم وفاقی وزارت ہے ،وہ جھنڈے والی گاڑی میں سگار پیتا ہوا راولپنڈی کے امام باڑہ روڈ سے دفتر کے لئے روانہ ہوتا ہے اور مارگلہ کی پہاڑیوں کے پاس اپنے بدحال محکمے کے شاندار دفترمیں جا پہنچتاہے،انہتر برس کارشید احمد، شیخ بچہ ہے مشہور ہے کہ شیخ گھاٹے کا سودا نہیں کرتے لیکن اس کی ریل ابھی تک گھاٹے میں چل رہی ہے پچھلے دنوںعدلیہ نے شیخ صاحب کو جھاڑ بھی پلائی سخت سست بھی کہا یہا ں تک کہہ دیا کہ آپ کو تو وزارت سے مستعفی ہوجانا چاہئے میڈٖیا نے اس عدالتی سماعت کی مصالحے دار چاٹ بنائی اور لیموں نچوڑ نچوڑ کر پیش کی مخالفین نے بھی شیخ صاحب کی خوب بھد اڑائی ’کہ شائد وہ لال حویلی پریس کانفرنس بلا کر ریل کا انجن ’’کپتان‘‘ کو واپس کر نے کا اعلان کردیں لیکن شیخ صاحب بھی شیخ صاحب ہیں وہ ایسے موقعوں پر جذباتی نہیں ہوتے وہ عدلیہ کی جھاڑ شفیق والد کی ڈانٹ کی طرح پی گئے ۔ شیخ رشید احمد عوامی لب و لہجے میں بات کرتے ہیں عام پنڈی والوں کی زبان لے کر نیوز چینلز میں جاتے ہیں اور نیوز شو کی ریٹنگ بڑھا کر واپس آتے ہیں ،وہ سیاست دانوں کے entartainerہیں ،ہر نیوز شوکے پروڈیوسر کی خواہش ہوتی ہے کہ شیخ رشید احمد ان کے پروگرام میں آئیں تاکہ انہیں کچھ پھلجھڑیاں ملیں جنہیں وہ سوشل میڈیا پرپھیلا کر پروگرام کی ریٹنگ بڑھائیں ،مشہور کریں ان کی اس خواہش کاشیخ صاحب پورا احترام کرتے ہیں ،نئی نئی پھلجھڑیاں چھوڑتے ہیں،تھڑے کی زبان کی نئی تراکیب متعارف کراتے ہیں اپنی بات بھی کرتے ہیں اور دیکھنے والے کو بھی خوش کر جاتے ہیں ۔ وہ نیوز شو میں کہہ رہے تھے کہ میں نے یہاںاتنے جنازوں کو کندھا دیا ہے کہ میرا ایک کاندھا ہی جھک گیا ہے میرے قدموں کو راولپنڈی کے قبرستانوں کے راستے زبانی یاد ہیں میرا یہاں آنا جانا لگا رہتا ہے لیکن ان دنوں میں نے ان قبرستانوں میں ایک ایسی بات دیکھی ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی اب میں قبرستانوں میں مفت کفن دفن کے لئے تعاون کرنے والوں کے کتبے لگا دیکھ رہا ہوں کچھ اہل دل ہیں جنہوں نے ان کتبوں پر پر اپنا فون نمبر دے رکھا ہے کہ فی سبیل اللہ کفن دفن کے لئے ہم سے رابطہ کریں آپکا نام کہیں مشتہر نہ ہوگاقبر کے ساتھ مردہ بیس پچیس ہزار کا پڑتا ہے غربت ایسی ہے کہ لوگ کے لئے کفن دفن مشکل ہوگیا ہے شیخ صاحب کو یہ بھی کہتا سنا کہ پہلے لال حویلی کے امام باڑہ روڈ پر فقراء مسکینوں کو کھانا کھلانے والوں کے ایک دو ٹھکانے ہوتے تھے اب تو ہر ہوٹل کے باہر مدقوق چہرے والے قطار بنائے بیٹھے ہوتے ہیں یہ سب دیکھ کر میرا دل بوجھل ہوجاتا ہے میں نے وہاں سے گزرناہی چھوڑ دیا ہے کہ میرے شہر کا یہ کیا حال ہوگیا ہے۔ کاش حکومتی صفوں میں شامل اہم وزیر کا تانگہ راولپنڈی سے باہر نکلتا تو انہیںہر شہر راولپنڈی ہی لگتاہر جگہ یہی مناظر دیکھنے کو ملتے ،غربت افلاس نے لوگوں کو خط غربت سے نیچے تو پہنچایا تھا ہی اب تو زمین کے نیچے پہنچانے لگی ہے،سرکاری ادارہ شماریات کے مطابق جنوری 2020ء میں مہنگائی کی شرح چودہ فیصد سے زیادہ رہی،صدر مملکت عارف علوی صاحب ایک انٹرویو کے دوران دو برسوں میں بائیس لاکھ افراد کے بے روزگار ہونے پر تشویش لہرا چکے ہیں ،اسے بدقسمتی کا کون سا درجہ کہا جائے کہ گندم پیدا کرنے والے دنیا کے دس بڑے ملکوں میں سے ایک پاکستان میں گندم کا بحران آکر ناچنے لگادراز قامت اسد عمر سرجھکاتے ہوئے پائے گئے کہ واقعی مہنگائی نے لوگوں کی زندگی مشکل کر دی ہے ان کا یہ بیان بالکل ہے زندگی مشکل نہیں عذاب ہوچکی ہے ،حساب کتا ب میں ہم ہمیشہ سے کمزور رہے ہیں تاریخ سے دلچسپی نہیں رہی اور مستقبل کی پرواہ نہیں اس لئے ہمارا حساب کتاب بھی ایسا ہی ہوتا ہے اصل صورتحال اوپروالا ہی جانتا ہے کہ وزیر اعظم کے قول صادق کے مطابق سکون کی تلا ش میں کتنے لوگ قبر کی گہرائی میں جا اترتے ہیں لیکن پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز بتاتا ہے کہ ان کے پاس اوسطایومیہ پانچ افراد کی خودکشی رپورٹ ہوتی ہے۔ شیخ رشید احمد نے ایک اور بات کہی کہ سرحدپار کا مودی اپنے داخلی خلفشار سے جان چھڑانے کے لئے پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے یہ بات اک اکیلا شیخ رشید ہی نہیں کہہ رہا دفاعی امور سے متعلق کئی صاحب الرائے لوگ بھی انہی خدشات کا اظہار کر چکے ہیں ایسی کسی بھی صورتحال میں دشمن ملک میں سیاسی معاشی ثقافتی انتشار آئیڈیل ہوتا ہے اور اگر فوج اور عوام کے درمیان فاصلے ڈال دیئے جائیں تو سونے پر سہاگہ ،ذرا غور کریں تو یہ کام یہاںکئی این جی اوز اور ’’قلم کار‘‘ کر تے دکھائی دیںگے ،اس مقصد کے لئے سوشل میڈیابہترین ہتھیار ہے لیکن ساتھ ساتھ ملکی اور بین الاقوامی سطح کے جرائد سے بھی ناصحین پندو نصائح کے نام پر باریک کام کررہے ہیں ،گذشتہ ماہ تیئس جنوری کودی نیویارک ٹائمز میں بیرون ملک مقیم ایک پروفیسر صاحب کی تحریر پرھنے کا اتفاق ہوا انہوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی آڑ میں ملکی اداروں اور سیاست دانوں پرخوب کیچڑ ملی ہے،امریکہ میں مقیم ایک امریکی یونیورسٹی کے پروفیسر کی ایک بڑے امریکی اخبار میں ایسی تحریر کی اشاعت خاصی معنی خیز ہے، پاکستان میں ’’اصلاح احوال‘‘ کے لئے جانے کہاں کہاں سے درد اٹھ رہا ہے انکے اس درد کا علاج پاکستان کی سالمیت کے لئے ایک سوچ رکھنے کاسا کچھ نہیں ،دہلی کے حالیہ انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی 70میں سے 62نشستوں پر عبرتناک شکست ہوئی ہے ،نریندر مود ی کو اپنی گرجانے والی ساکھ کا اندازہ ہوچکا ہے، دہلی اسمبلی کے انتخابات میں لگنے والے62زخموں نے بی جے پی کوباؤلا کر دیا ہے اسے اپنی ساکھ بھی بچانی ہے او ر سیاست بھی،وہ پاکستان کا رخ کرسکتا ہے اسکے لئے شیخ رشید کا خدشہ بڑبولا پن نہیں ،ہمیں چوکس رہنا ہوگا۔