سب سے پہلے ذکر اس ننھے منے احتجاج کا، جو بدھ کی سہ پہر حمزہ شہباز کی قیادت میں چیئرنگ کراس پر ہوا،احتجاج ن لیگ کے قائد، اپوزیشن لیڈر اور سابق طاقتور وزیر اعلیٰ پنجاب کی گرفتاری کیخلاف تھا، اس احتجاج کا دوسرا مقصد شہباز شریف کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کو یقینی بنانا اور اسپیکر کی جانب سے پروڈکشن آرڈر جاری کرانا تھا، اب تو اجلاس بھی بلوا لیا گیا ہے اور پروڈکشن آرڈر بھی جاری ہو چکے ہیں جو ایک مثبت بات ہے، لیکن لاہور میں ن لیگ کا یہ احتجاج قطعی طور پر ن لیگ اور میاں شہباز شریف کے شایان شان نہ تھا، کہاں گئے وہ لوگ جنہیں لاکھوں کا مجمع کہا جاتا تھا؟ میں نے اس احتجاجی مظاہرے کی ڈرون کیمروں کے ذریعے لی گئی تصاویر بار بار دیکھی اور خود شرمندہ ہوتا رہا۔ ہم جیسے لوگ ہر دور میں اپوزیشن کے ساتھ ہوتے ہیں، اسی باعث مجھے آج ن لیگ کی وکالت کرنے کی تمنا ہے، اس کے باوجود کہ ن لیگ اور اس کی قیادت نے پاکستان سے آزادی صحافت کے مینار ماضی کے مزار بنا دیے ہیں، میڈیا مالکان سے ن لیگ کے گٹھ جوڑ نے پاکستان سے کارکن صحافی کا تصور ہی مٹا ڈالا ہے، صحافیوں کا ایک چھوٹا سا گروہ کروڑ پتی ،ارب پتی بن چکا ہے، میں جانتا ہوں کہ بہت جلد باری اس لفافہ گروپ کے احتساب کی بھی آنے والی ہے، تھوڑی سی تعداد میں ان صحافیوں کو لفافہ گروپ کا لقب میں نے نہیں مرحوم مجید نظامی صاحب نے دیا تھا اور یہ بھی کہہ دیا تھا کہ لفافہ گروپ کے موجد نواز شریف ہیں، نواز شریف کو جب اپنے ملک سے جان بچانے کیلئے نکلنا پڑا تھا،اس وقت یہ لفافہ گروپ نواز شریف کے مخالف سیاستدانوں کی جھولی میں جا بیٹھا تھا، بہت سے ایسے صحافیوں سے نواز شریف نے ہمیشہ کیلئے ناطہ بھی توڑ لیا تھا۔ میں نے پنجاب اسمبلی کے سامنے اسی چیرنگ کراس چوک میں ون مین آرمی کی طرح درجنوں بار احتجاجی مظاہرے منظم کئے ہیں، صحافیوں کے روزگار کے تحفظ اور آزادی صحافت کیلئے کبھی بھی اتنا چھوٹا سا احتجاج نہیں ہوا جتنا کہ ن لیگ کا یہ بدھ والا احتجاج تھا، اس احتجاج کے شرکاء میں خواجہ سعد رفیق اور رانا اقبال کے سوا کوئی پہچانا جانے والا چہرہ موجود نہ تھا، ن لیگ کے دوست میڈیا سے گزارش ہے کہ وہ احتجاج کے لئے بھی سابق حکمرانوں کی مدد کر دیا کریں، مجھے صدر پی ایف یو جے رانا عظیم کی قیادت میں پنجاب اسمبلی کے سامنے دو سال پہلے والا صحافیوں کا وہ احتجاج بھی یاد آیا جس کے کئی درجن شرکاء آہنی اور خاردار رکاوٹیں پھلانگ گئے تھے، جن میڈیا ورکرز نے آہنی رکاوٹیں عبور کی تھیں ان کی تعداد حمزہ شہباز کی تقریر سننے والوں سے زیادہ تھی، یہ احتجاج نائنٹی ٹو نیوز چینل کے خلاف حکمرانوں کی جانب سے بے بنیاد مقدمات کے اندراج کے خلاف تھا، یہ کوئی پرانا واقعہ نہیں اس کی تصاویر آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے،اب ایک مشورہ حمزہ شہباز شریف کیلئے، امکان ہے کہ گرفتاری سے پہلے انہیں اس قسم کے ایک دو اور احتجاجی مظاہروں کی قیادت کرنا پڑے، انہیں اپنے تایا جیسی واسکٹ اتارنا پڑے گی، واسکٹ صرف میاں نواز شریف کو جچتی ہے، بڑے پیٹ کی وجہ سے،،، حمزہ شہباز کو اپنی وضع قطع میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، اپنا درزی بھی بدلنا ہوگا، ایک مشورہ کسی خوش پوش سے لیں کہ انہیں لباس کے کلرز کون سے سوٹ کریں گے؟ ٭٭٭٭٭ اب چلتے ہیں حکمران تحریک انصاف کے قائدین کی طرف جنہوں نے عام آدمی کے منہ سے آخری نوالہ بھی چھین لیا ، روپے کو کوہ ہمالیہ کی آخری چوٹی سے دھکا دیدیا گیا ہے، انقلابات کی باتیں کرنے والے عمران خان مرے ہوئے عوام کو تسلیاں، تشفیاں دے رہے ہیں جنہیں ان کی آواز ہی سنائی نہیں دے رہی، پاکستان کو آئی ایم ایف نے ہی چلانا تھا تو آپ نے 22سال تک عوام کو کیوں خواب دکھائے عوام کو اتنی خوش گمانیوں میں مبتلا کیوں کئے رکھا؟ یہ کون سی تبدیلی لائے ہیں آپ؟ آپ ایک اور فنانشل سکیم سامنے لے آئے، اس سکیم کا ٹرائل کون کرے گا؟ کوئی اشارہ بھی نہ دیا۔ غریب اور مالدار طبقے میں اور مال بانٹ دیا، غریبوں سے پیسہ لوٹ کر امیروں میں تقسیم کرنے والا لیڈر میں نے بھی پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، حکمران ایک سوال کا جواب دیدیں، صرف ایک سوال کا۔۔۔۔ آپ نے امیر طبقے کو فی ڈالر دس روپے کا منافع دے کر اسے بنکوں کا راستہ دکھا دیا، کیوں؟ آخر کیوں؟ بیٹھے بیٹھے آپ نے روٹی سات کی بجائے دس روپے کی کردی، دس روپے کا نان بارہ روپے کا کر دیا، پاکستان کے غریب لوگ اپنے انصاف پسند وزیر اعظم سے یہ سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ انہیں بتایا جائے کہ بنکوں اور منی چینجرز نے کتنے ڈالرز کے عوض پاکستان کی بیمار کرنسی بانٹی؟ کیا یہی ایک راستہ تھا آپ کے اقتصادی ماہرین کے پاس؟ ابھی تو آپ نے آئی ایم ایف کو نئے قرضے کی درخواست بھی نہیں دی اور یہ حال کر دیا عام آدمی کاِ ، عوام کا یہ مسئلہ ہی نہیں ہے کہ نواز شریف کے ساتھ کیا ہوگا؟ شہباز شریف کب تک بند رہیں گے اور آصف زرداری کا مستقبل کیا ہے؟ لوگ تو اب یہ سوچ رہے ہیں کہ بے وقعت روپے کو وہ اپنے بچوں کو کارٹون بنانے کیلئے بھی نہیں دے سکتے کیونکہ اس پر کچھ لکھنے کی گنجائش ہی نہیں رہی، آپ نے ایک کروڑ لوگوں کو پانچ سال میں روزگار دینے کا جو وعدہ کیا تھا اب عوام کا اس وعدے سے بھی یقین اٹھ گیا ہے، جو حکومت عوام کو دو وقت کی روٹی سے محروم کر دے وہ غریب کو پچاس لاکھ گھر کیسے دے گی؟ جناب وزیر اعظم عمران خان صاحب ! اپنے وزیر خزانہ اسد عمر کو عوام کی اس عدالت میں لازمی بھجوائیں جو بس لگنے ہی والی ہے، کیا یہ سچ نہیں کہ غیر ملکی قرضوں میں ایک ہی رات میں نو سو ارب کا اضافہ سالوں میں بھی پورا نہیں ہو سکتا، یہ وہ ملک ہے اور یہ اسی ملک کے بائیس کروڑ عوام جنرل ضیاء الحق کے چیلوں کی جیل میںبند رہے اور انہیں آپ سے توقع تھی کہ آپ انہیں اس طویل قید بامشقت سے رہائی دلائیں گے، لیکن آپ نے تو جیل کے دروازے پر ایک اور تالہ لگا دیا۔ ٭٭٭٭٭ جب سے نئی حکومت آئی ہے میں نے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کے چہرے پر صرف ایک دن سنجیدگی اور متانت دیکھی شاید یہ حکومت کا پہلا دن تھا، اس کے بعد غصہ ہے کہ فواد چوہدری کی جان ہی نہیں چھوڑ رہا، سب سے جھگڑا، سب سے پھڈا، یہ اسی طرح چلتا رہا تو کام کون کرے گا؟ ن لیگ کے بڈھے شیر مشاہد اللہ خان کے ساتھ ان کا اٹ کھڑکا پرانی پنجابی فلموں کی یاد تازہ کر دیتا ہے، فواد چوہدری کا موقف ہے کہ وہ چور کو چور اور ڈاکو کو ڈاکو نہ کہیں تو کیا کہیں ؟ فواد چوہدری صاحب ! آپ نے بائیس سال تک چوروں کو چور اور ڈاکوؤں کو ڈاکو کہا اور قوم پر کمال مہربانی فرمائی، مگر اے دوست! اب آپ حکمران ہیں، اب الزامات کیوں؟ قانون پارلیمنٹ کے تابع ہے، ذرا سا حوصلہ کریں اور ان کا ٹرائل کریں۔۔۔ ایسا نہ ہوا تو لوگ کہیں گے عمران خان نے فواد چوہدری کو لوگوں کی اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کا فریضہ سونپ رکھا ہے، آپ کے اپنے محکمے کے مسائل اتنے زیادہ ہیں جو پانچ سالوںمیں بھی حل نہیں ہو سکتے۔۔۔ جاتے جاتے حکمرانوں سے ایک سوال۔۔اخلاقی دیوالیہ پن اور معاشی دیوالیہ پن میں کیا فرق ہوتا ہے؟