سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو نے نیویارک میں پیپلز پارٹی کے ایک اجلاس میں شریک اراکین سے پوچھا کہ ’’کیا وجہ ہے کہ چودھری برادران ہر الیکشن میں جیت جاتے ہیں؟ آئندہ الیکشن میں انہیں ہرانے کیلئے حکمت عملی مرتب کی جائے!‘‘ اس موقع پر ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے عرفان میر نے کہا کہ چودھری برادران کے نہ ہارنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ سیاست پارٹ ٹائم نہیں بلکہ فل ٹائم کرتے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ انہوں نے مختلف علاقوں میں رشتہ داریاں قائم کر رکھی ہیں! اجلاس میں شریک پارٹی کارکنوں نے اپنی چیئرپرسن کو مشورہ دیا کہ اگر وہ چاہتی ہیںکہ آئندہ عام انتخابات میں چودھری برادران کو شکست دی جائے تو اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے انہیں فل ٹائم سیاستدان کی ڈیوٹی لگانا ہو گی کیوجکہ احمد مختار گجرات کو کوئی ٹائم نہیں دیتے اور سیاست پارٹ ٹائم کرنے کے عادی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ بینظیر بھٹو کی یہ گفتگو پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی صدر اور سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الہٰی کو ان کی سیاسی کامیابیوں پر بالواسطہ خراج تحسین ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ نیویارک کے اس اجلاس میں پارٹی کارکنوں نے اپنی چیئرپرسن کے سوال کا جو جواب دیا وہ بھی ایک طرح سے چودھری برادران کی سدا بہار خدمت کی سیاست کا اعتراف ہے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ سیاستدان الیکشن کے دنوں میں ہی اپنے اپنے حلقہ انتخاب کا رخ کرتے ہیں اور پھر الیکشن جیتیں یا ہاریں دونوں صورتوں میں غائب ہو جاتے ہیں۔ بڑی بڑی جاگیروں اور قبائل کے زیراثر حلقوں میں جہاں کے عوام سماجی اور معاشی حوالے سے دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں البتہ صورتحال بالکل مختلف ہے اس لئے ایسے حلقوں سے کسی ایک ہی شخصیت کے بار بار منتخب ہونے پر کوئی حیرت کا اظہار بھی نہیں کرتا۔ گجرات پاکستان کے خوشحال ترین اضلاع میں شامل ہے وہاں کے عوام سیاسی، سماجی اور معاشی ہر حوالے سے خودمختار اور آزاد ہیں۔ چودھری ظہور الٰہی نے گجرات میں خدمت کی سیاست کا جو پودا لگایا تھا چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی نے اپنی شبانہ روز محنت سے اسے ایک تناور درخت بنا دیا ہے۔ چودھری وجاہت حسین سے چودھری شفاعت حسین، مونس الٰہی اور میاں عمران مسعود سے چودھری نعیم رضا تک گجرات کے مسلم لیگی سیاستدانوں کی نئی نسل اس کی گھنی چھائوں سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کو جو سیاسی روایات ورثے میں ملی ہیں ان کے تحت ان کی خدمت خلق اور حق گوئی و بیباکی کی سیاست کبھی بھی حکومت یا اقندار کی مختاج نہیں رہی۔ یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند بہار ہو کہ خزاں… لا الٰہ الا اللہ اپنے ووٹرز سے مسلسل رابطہ اور ان کے دکھ درد اور خوشی غمی میں بلاامتیاز شرکت چودھری برادران کی سیاست کا ایک ایسا زریں اصول ہے کہ چس کی پیروی کرکے کوئی بھی سیاستدان سدابہار سیاسی کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے۔ کرپشن اور کمیشن کی سیاست کی ایسی وبا چلی ہے کہ لوگ اپنی خون پسینے کی کمائی عوامی خدمت پر خرچ کرنے کی بجائے الٹا عوام کے خون پسینے کی کمائی سے تشکیل پانے والے قومی خزانے کی لوٹ مار کیلئے سیاست میں آتے ہیں۔ خدمت خلق کی سیاست یقیناً چودھری برادران کی ’’جاگیر‘‘ نہیں کوئی بھی سیاستدان ان زریں اصولوں پر کاربند ہو کر مسلسل سیاسی کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے۔ گجرات کے عوام خوش قسمت ہیں کہ انہیں چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی جیسے مخلص اور عوام دوست سیاستدان ملے ہیں۔ چودھری ظہور الٰہی کی زندگی ان تمام سیاستدانوں کیلئے مشعل راہ ہے جو عوام کے دلوں پر راج کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی شہادت کو چونتیس برس گزر چکے ہیں لیکن ان کا قافلہ اسی آب و تاب کے ساتھ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کی سرکردگی میں آج بھی رواں دواں ہے۔ وزیر اعظم نامزد ہونے کے بعد ایک قومی اخبار کو پینل انٹرویو دیتے ہوئے چودھری شجاعت حسین نے کہا تھا کہ ’’میں اس بات کا قائل نہیں کہ دل میں کچھ ہو اور دماغ میں کچھ، اور زبان پر کچھ اور اب وقت آ گیا ہے کہ عوام کے سامنے گھما پھرا کر نہیں … بلکہ سیدھی اور صاف بات کرنی چاہئے‘‘… وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’قلندری بھی کروں گا اور سکندری بھی’’ … چودھری شجاعت حسین کے یہ خیالات محض زبانی جمع خرچ نہیں، وہ اپنے عمل سے اس کا ثبوت بھی فراہم کر چکے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ قلندرانہ صفات چودھری شجاعت حسین کو اپنے شہید والد سے ورثہ میں ملی ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف عائد الزامات اور تعلیمی نصاب میں تبدیلیوں کے ایشوز پر چودھری شجاعت حسین نے قلندری و سکندری کی مشترکہ صفات سے کام لے کر نہ صرف حق گوئی و بیباکی کا تاریخی مظاہرہ کیا بلکہ درپیش صورتحال سے نکلنے کیلئے ایسا درمیانی راستہ نکالنے میں مدد دی کہ عالمی دبائو کا سانپ بھی مر جائے اور قومی مفادات کی لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ہماری گزشتہ کئی برسوں کی تاریخ شاہد ہے کہ چودھری ظہور الٰہی نے ملک میں قلندرانہ سیاست کی جو شمع روشن کی تھی قلندر ابن قلندر چودھری شجاعت حسین نے اسے بجھنے نہیں دیا۔ جمعۃ المبارک کا دن تھا اور ستمبر 1981ء کی 25 تاریخ، ملکی سیاسی تاریخ کے منفرد کردار چودھری ظہور الٰہی تاجر برادری سے تعلق رکھنے والے اپنے دوست محمد امین کی والدہ کے انتقال پر اظہار تعزیت کے بعد واپس آ رہے تھے، نامور قانون دان ایم اے رحمن اور جسٹس مولوی مشتاق حسین بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ماڈل ٹائون لاہور کے قریب 4 دہشت گردوں نے اچانک اندھا دھند فائرنگ کرکے انہیں شہید کر دیا۔ چودھری ظہور الٰہی کو ان کی وصیت کے مطابق گجرات کے محلہ مسلم آباد کے قبرستان بھٹیاں والا میں ان کی والدہ مرحومہ کے قدموں میں سپرد خاک کیا گیا۔ آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے