معزز قارئین!۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز اُالاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 2 رُکنی بنچ نے ’’جعلی اکائونٹس کیس ‘‘ تفتیش کے لئے "N.A.B" کے سپرد کردِیا ہے اور اُسے 2 ماہ تک تفتیش مکمل کرنے کا حکم دِیا ہے لیکن، چیئرمین بلاول بھٹو اور وزیراعلیٰ سندھ سیّد مراد علی شاہ کے نام "Exit Control List" ( E.C.L) سے نکال دئیے ہیں۔ سپریم کورٹ نے "Joint Investigation Team"(J.I.T) کی رپورٹ سے بلاول بھٹو کا نام خارج کردِیا ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’ جے۔ آئی۔ ٹی وضاحت کرے کہ ،کیا بلاول بھٹو اِس کیس میں ملوث ہے یانہیں؟‘‘۔ چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ ’’ اگر "N.A.B" چاہے تو ، بلاول بھٹو زرداری اور سیّد مراد علی شاہ سے آزادانہ تحقیقات کرسکتا ہے ‘‘۔ خبروں کے مطابق ،چیف جسٹس صاحب نے ’’ جے ۔ آئی۔ ٹی ‘‘ کے وکیل سے پوچھا کہ ’’ پہلے یہ بتائیں کہ بلاول بھٹو کو کیوں ملوث کِیا گیا ہے ؟۔ وہ تو، معصوم بچہ ہے جو، اپنی والدہ ( بے نظیر بھٹو )کی "Legacy" ( وصیت کردہ عطیہ، میراث یا روایات) کو آگے بڑھا رہا ہے ، آپ نے اُس کانام بھی ای۔ سی۔ ایل میں ڈال دِیا ،کیا جے ۔ آئی۔ ٹی نے بلاول کو بدنام کرنے کے لئے معاملے میں شامل کِیا ،یا کسی کے کہنے پر ؟۔ بلاول کا کیرئیر ابھی تک بے داغ ہے۔ اُن کے والد (آصف علی زرداری ) اور پھوپھی ( فریال تالپور) کا تو، اِس معاملے میں کوئی کردار ہوگالیکن، بلاول کا کیا کردار ہے؟۔ ’’جے۔ آئی۔ ٹی ‘‘ بلاول بھٹو زرداری سے متعلق ( عدالت کو) مطمئن کرے‘‘۔ معزز قارئین!۔ چیف جسٹس صاحب کے یہ ریمارکس ، عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں، جب تک کوئی ملزم ، مجرم ثابت نہ ہو جائے اُسے معصوم ؔ ۔ لُغت کے مطابق (بے گناہ ،خطا سے پاک ، بے قصور ، پاک دامن، سیدھا سادہ، بھولا ، ننھا بچہ ، چھوٹا بچہ، کمسن بچہ ) ہی کہا جائے گا۔ انگریزی اخبارات کے مطابق ، چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ۔ "Bilawal Bhutto had Just Started his Politcal Career to Complete the Mission of his Mother"۔( یعنی۔ بلاول بھٹو نے ، ابھی ابھی اپنی والدہ کے مشن کی تکمیل کے لئے اپنا سیاسی کیرئیر کا آغاز کِیا ہے)۔ غور طلب ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’’ 18 دسمبر 1987ء کو محترمہ بھٹو کی ، آصف علی زرداری سے شادی ہُوئی ۔ 21 ستمبر 1988ء کو بلاول بھٹو پیدا ہُوئے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے دو بار وزارتِ عظمیٰ سنبھالی ۔اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دور (دسمبر 1993ء میں )اُنہوں نے پارٹی کی چیئرپرسن ( اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو ) کو برطرف کر کے خُود چیئرپرسن شِپ سنبھال لی تھی لیکن، اپنی زندگی میں اپنے شوہرنامدار کو اپنی پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا ؟۔ 27 دسمبر2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل ہُوا۔ اُن کے قتل کے بعد اُن کی مبینہ ( برآمدہ ) وصیت کے مطابق جناب آصف زرداری نے (National Identity Card Holder) اپنے 19 سالہ بیٹے بلاول زرداری کو ’’ بھٹو‘‘ کا خطاب دے کر اُسے ’’چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ نامزد کردِیا اور خود اُس کے ماتحت شریک چیئرمین بن گئے۔ معزز قارئین!۔ لاہور ہائی کورٹ کے لارجر بنچ نے، صدر زرداری کے دو عہدے رکھنے پر، توہینِ عدالت کیس کی سماعت کے دوران، 17مارچ کو حْکم دِیا تھا کہ۔ ’’صدر آئندہ سماعت ( 29مارچ) تک سیاسی عہدہ چھوڑ دیں، ورنہ عدالت اپنا فیصلہ کرے گی‘‘۔ صدر صاحب نے حْکم کی تعمیل کی، چنانچہ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ (پی۔ پی۔ پی) کی طرف سے، 22 مارچ کو اعلان کر دیا گیا کہ۔ ’’صدر زرداری نے پی پی پی کے شریک چیئرمین کا عہدہ چھوڑ دیا ہے‘‘ لیکن، جنابِ آصف زرداری ، مخدوم امین فہیم کی وفات کے بعد اُن کی چیئرمین شِپ میں 2002ء سے قائم ’’پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز‘‘ (پی۔ پی۔ پی۔ پی) کے صدر منتخب ہوگئے ، 2013ء اور 2018ء کے عام انتخابات بھی ’’ پی ۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ ہی کے امیدواران ،پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے منتخب ہُوئے۔ حیرت ہے کہ ’’ 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین (مرحوم ذوالفقار علی بھٹو) کی یادگار ۔تلوار (Sword) کے انتخابی نشان والی ، بلاول بھٹو کی چیئرمین شِپ میں ’’پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ ( پی۔ پی۔ پی) بھی ’’الیکشن کمِشن آف پاکستان ‘‘ کے پاس رجسٹرڈ تھی/ ہے لیکن، انتخابات میں جنابِ آصف زرداری کی صدارت میں ’’پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز‘‘ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) ہی نے حصہ لِیا۔ اِس وقت پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں جو پارٹی ۔’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ (پی۔ پی۔ پی) کہلاتی ہے اُس کے صدر ہیں جناب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو اُسی پارٹی کے منتخب رُکن اور قومی اسمبلی میں قائد حزب ِ اختلاف ہیں اور اِس وقت اُن کی عمر ہے 30 سال سے زیادہ ؟۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی اُنہیں بچہ اور معصوم کہا جاسکتا ہے ؟۔ اُس وقت بلاول بھٹو زرداری کی عمر 25/24 سال تھی ، جب اُنہوں نے 4 اپریل 2013ء کو جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی 34 ویں برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں پاکستان پیپلز پارٹی کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہُوئے اپنی اور اپنے والد صاحب کی پارٹیوں کے حاضرین کی معلومات ؔمیں اضافہ کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ میرے ’’ بابا سائیں‘‘ آصف علی زرداری کی طاقت آپ کی سوچ سے زیادہ ہے۔ میرے ’’ بابا سائیں‘ ‘ ایک "Political Scientist" ( سیاسی سائنسدان) ہیں اور آئندہ آپ دیکھیں گے کہ ، وہ پاکستان کی سیاست کو کِس طرح اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیتے ہیں! ‘‘۔ معزز قارئین!۔ مَیں نے تو، اُس وقت بھی جنابِ آصف زرداری کو، ’’ سیاسی سائنسدان‘‘ تسلیم کرلِیا تھا کہ، جب اُنہوں نے اپنے فرزند بلاول زرداری اور دونوں بیٹیوں بختاور زرداری اور آصفہ زرداری کے نام کے ساتھ بھٹوؔ کا لاحقہ لگا دِیا تھا اور 2018ء کے عام انتخابات میں بھی کِس خوبصورتی سے جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کے انتخابی نشان تلوارؔ کو نیام میں ڈال کراپنی صدارت میں انتخابی نشان’’ تیر ‘‘ (Arrow) والی ’’پاکستان پیپلز پارلیمنٹیرینز ‘‘ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) کے امیدواروں کو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچا دِیا۔ اِن انتخابات میں بھی سندھ کے عوام سے ، بلاول بھٹو زرداری کا یہ وعدہ بھی پورا ہوگیا کہ … مَرسُوں ، مَرسُوں، سندھ نہ ڈیسوں! مجھے نہیں معلوم کہ ’’ سائنسی سیاستدان‘‘ آصف علی زرداری اور بقول اُن کے ( مادرِ ملّت ثانی) فریال تالپور صاحبہ ’’جعلی اکائونٹس کیس ‘‘سے کیسے بری ہوں گے ؟، اور ہاں!۔ 27 دسمبر 2018ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی 11 ویں برسی سے پہلے اِس طرح کی خبریں پھیلائی جا رہی تھیں کہ ’’ اگر جعلی اکائونٹس کیس میں ، آصف علی زرداری ، فریال تالپور اور بلاول بھٹو زرداری کو سزائیں ہوگئیں تو، جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی واحد زندہ اولاد 62/61 سالہ صنم بھٹو کی قیادت میں ’’پاکستان پیپلز پارلیمنٹیرینز ‘‘ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) کا کوئی اہم عہدہ دے کر پارٹی کو فعال کردِیا جائے گا ‘‘ لیکن، چشم فلک نے دیکھا کہ ’’27 دسمبر 2018ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر اُن کی چھوٹی بہن صنم بھٹو کی "Launching" (رونمائی) نہیں ہوسکی۔ صنم بھٹو جلسہ گاہ میں اپنی مرحومہ بہن بے نظیر بھٹو (اور آصف زرداری ) کی دونوں بیٹیوں بختاور بھٹو زرداری اور آصف بھٹو زرداری کے ساتھ بیٹھی آنسو بہا رہی تھیں۔ دراصل صنم بھٹو صاحبہ اِس طرح کی ’’ سیاسی سائنسدان‘‘ نہیں ہیں کہ وہ ،اپنے بہنوئی ، اُن کی بہن اور اپنے بھانجے کے لئے کچھ کرسکیں؟۔ معزز قارئین!۔ گذشتہ کئی دِنوں سے بلاول بھٹو زرداری کے دادا ، حاکم علی زرداری کے ایک پرانے ویڈیو انٹرویو کی ہر طبقے میں مذمت کی جا رہی ہے ،جس میں آنجہانی نے ’’ بابائے قوم ‘‘ حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ اور اُن کے عظیم والد ِ (مرحوم ) جناب جناح پونجا کے خلاف زبان درازی ، ہذیان گوئی ، دریدہ دہنی ، الزام تراشی، بہتان، تہمت کا مظاہرہ کرتے ہُوئے خُود کے لئے بدنامی اور رُسوائی حاصل کر لی تھی/ ہے ؟۔ ایسی صورت میں بلاول بھٹو زرداری ، اپنی ’’شہید والدہ‘‘ کا مشن اور اپنے ’’سیاسی سائنسدان والد ‘‘ کی خواہشات کو کیسے پورا کریں گے؟۔