پرانے زمانے میںبھی جسم پر تصویریں بنوانے کا رواج تھا۔ آج کل اسے TATOOکہتے ہیں۔ یہ اگلے وقتوں کی بات ہے‘ ایک نوجوان جسم پر تصویریں گودنے والے کے پاس گیا اور فرمائش کی کہ اس کے کندھے پر شیر کی تصویر گودے۔ تب یہ کام سوئی سے ہوتا تھا۔ تصویر ساز نے کندھے پر تصویر بنانا شروع کی۔ سوئی بار بار گوشت میں پیوست ہوئی تو نوجوان درد سے چلا اٹھا۔ پوچھا کیا بنا رہے ہو؟ جواب دیا شیر کی دُم ! نوجوان نے کہا دم رہنے دو۔ آخر دم کے بغیر بھی تو شیر ہو سکتا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد درد پھر ناقابل برداشت ہو گیا۔ پوچھا اب کیا بنا رہے ہو؟ اس نے کہا شیرکا کان! کہنے لگا کان بھی رہنے دو! تصویر ساز نے کان چھوڑ دیا۔ مگر درد تو ہونا تھا۔ سوئی مسلسل چبھوئی جا رہی تھی۔ نوجوان پھر بے حال ہو گیا۔ پوچھا اب کیا بنا رہے ہو؟ جواب دیا شیر کا پیٹ! نوجوان نے کہا پیٹ بھی رہنے دو ۔تصویر ساز کی قوت برداشت جواب دے گئی۔ اس نے سوئی زمین پر پھینک دی اور بے بس ہو کر کہنے لگا۔ شیربی دُم و سرو اشکم کہ دید این چنین شیری خدا خود نافرید ایسا شیر کیا آج تک کسی نے دیکھا بھی ہے؟ جس کی دم نہ ہو‘ سر بھی نہ ہو اورپیٹ بھی نہ ہو! ایسا شیر تو خدا نے خود نہیں تخلیق کیا! مثنوی رومی کی یہ حکایت تحریک انصاف کی حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پر یاد آ رہی ہے۔ عمران خان صاحب نے ایک سال پہلے حکومت سنبھالی۔ مگر جلدہی سوئی کی تکلیف ناقابل برداشت ہو گئی۔ ایک ایک کر کے‘ یکے بعد دیگرے اپنے عزائم منسوخ کرنے شروع کر دیے ۔کم ازکم تین بڑے یو ٹرن خان صاحب نے ایسے لئے جو شیر کی تصویر کو ادھورا کر رہے ہیں۔ اس قدر ادھورا کہ شیر کو شیر کہا ہی نہیں جا سکتا! پہلی رجعت قہقری ناصر خان درانی کے حوالے سے تھی۔ وزیر اعظم نے تقریر میں اعلان کیا کہ ناصر درانی نے جس طرح کے پی میں پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کیا۔ اب پنجاب میں بھی انہیں ایسا ہی کرنے کے لئے تعینات کیا جا رہا ہے۔ ناصر درانی تعینات ہوئے مگر کچھ دن ہی گزرے تھے کہ خدا حافظ کہہ کر چلے گئے۔ وہ دن اور آج کا دن‘ حکومت کے کسی ترجمان نے نہ خود وزیر اعظم نے قوم کو اعتماد میں لیا کہ ناصر کیوں گئے اور اب پنجاب کی پولیس کا کیا ہو گا؟ یہ ایک فرد کی رخصتی کا معاملہ نہیں! بطور وزیر اعظم آپ نے پہلے خود اعلان کیا اب آپ منقار زیر پر ہو کر بیٹھ گئے ہیں! اس کا مطلب سیدھا سادا ایک ہی ہے کہ پنجاب میں پولیس کو بالخصوص اور بیورو کریسی کو بالعموم سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کا منصوبہ سرد خانے میں چلا گیا ہے! شاید کبھی ناصر درانی خود اس راز سے پردہ ہٹائیں کہ اس قدر جلد اور اتنی پراسرار خاموشی سے وہ کیوں پیش منظر سے غائب ہو گئے! سول سروس ریفارم کے حوالے سے بھی وزیر اعظم کی غیر سنجیدگی ڈاکٹر عشرت حسین کے انتخاب سے ظاہر ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب سٹیٹس کو کی علامت ہیں اور سول سروس کے ایک خاص گروہ کے نمائندے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر جو دلیل اس انتخاب کو بودا ثابت کر رہی ہے وہ یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر عشرت حسین یہ ’’کام‘‘ جنرل مشرف کے زمانے میں بھی کر چکے ہیں۔ تب بھی انہیں سول سروس ریفارم کا کام سونپا گیا تھا۔ نتیجہ صفرنکلا۔ ان کے مائنڈ سیٹ کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند ہفتے پہلے جب سرکاری ملازموں کی ریٹائرمنٹ عمر ساٹھ سے 65سال کرنے کی بات ہوئی تو مبینہ طور پر ڈاکٹر عشرت حسین نے یہ خیال ظاہر کیا(یا کوشش کی) کہ صرف وفاقی سیکرٹریوں کو 65سال تک ریٹائر نہ کیا جائے۔ باقی ملازمین ساٹھ سال تک ہی رہیں چنانچہ یہ طے ہے کہ اس سول سروس ریفارم کمیشن کی چھاچھ پر مکھن کا کوئی پیڑا تیرتا ہوانظر نہیں آئے گا۔ تصویر بنانے والے کو دوسرا دھچکا تب لگاجب عمران خان صاحب نے ماضی کے حکمرانوں کی طرح دوست نوازی شروع کی۔ جس صاف ستھری حکومت کے بلند بانگ دعوے انہوں نے دو عشروں تک کئے تھے ۔اس میں دوست نوازی کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے تھی! مگر خان صاحب اس سے بچ نہ سکے۔ زلفی بخاری‘ یوسف بیگ مرزا اور انیل مسرت جیسے پرانے دوست کاروبار حکومت میں پوری طرح دخیل ہیں۔ سیکرٹری انفارمیشن‘وزیر کے برابر مشیر‘ اور افتخار درانی کی موجودگی میں یوسف بیگ مرزا کی ضرورت صرف خان صاحب خود ہی واضح کر سکتے ہیں۔ انیل مسرت صاحب کابینہ کے اجلاس میں بھی شرکت کر چکے ہیں۔ فرض کیجئے یہ ذاتی دوست‘ فی الواقع‘ باصلاحیت ہیں‘ تب بھی مفادات کا ٹکرائوConflict of intrests.ضرور پیش آئے گا یا پیش آ رہا ہو گا! دوست نوازی کا ارتکاب کر کے خان صاحب اپنے آپ کو اس معیار سے فروتر ثابت کر چکے ہیں جس کے وہ مدعی تھے ! ان کے دوستوں کے علاوہ بھی باصلاحیت افراد ملک میں موجود ہیں! تیسرا دھچکا تازہ ترین ہے اور سخت ہے! ملک کے لاکھوں کروڑوں لوگ ان دنوں وہ ویڈیو دیکھ رہے ہیں جس میں عمران خان نے وزیر اعظم بننے سے پہلے توسیع دینے کی مخالفت کی تھی اور بھر پور کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’جنگ کے اندر بھی جب ورلڈ وار ہو رہی تھی سیکنڈ ورلڈ وار۔ فرسٹ ورلڈ وار‘ کبھی بھی انہوں نے کسی کو extensionنہیں دی۔ ادارے جو ہوتے ہیں وہ فنکشن کرتے ہیں اپنے قوانین کے مطابق۔ جب ان کے قوانین آپ توڑتے ہیں اور کسی شخص کے لئے چینج کرتے ہیں تو آپ اس ادارے کو تباہ کرتے ہیں۔‘‘ پھر صحافی سوال کرتا ہے ’’جنرل کیانی صاحب کو extensionنہیں ملنی چاہیے تھی؟‘‘ عمران خان صاحب جواب دیتے ہیں: ’’اس لئے نہیں ملنی چاہیے تھی کہ آپ ادارے کو کمزور کریں گے‘‘ یہ دلیل کہ خطے کی حالت دگرگوں ہے یا حالت جنگ میں سپہ سالار تبدیل نہیں ہونا چاہیے‘ ایسی دلیلیں ہیں جو ہر بار ماضی میں دی جاتی رہیں اور بے اثر ہو چکی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجوہ آرمی چیف نے قابل تحسین کارکردگی دکھائی۔ ان کی بے پناہ خدمات ہیں مگر کوئی فرد واحد کسی بھی ادارے کے لئے ناگزیر نہیں ہوتا۔ حضرت عمرفاروقؓ نے جنگ کے دوران سپہ سالار بدل دیے۔ خود عمران خان کہہ رہے تھے کہ ترقی یافتہ ملکوں نے عالمی جنگوں کے دوران بھی کسی کو توسیع نہیں دی۔ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ادارے کے مورال پر ایسے اقدامات سے منفی اثر پڑتا ہے۔ پاکستانی افواج دنیا کی منظم ترین افواج میں سرفہرست ہیں ایسی افواج شخصیات سے نہیں سسٹم سے کامیابی حاصل کرتی ہیں۔ اب اگر شیر کا کان بھی نہیں بننے دیا جا رہا‘ دُم بھی نہیں ہو گی اور پیٹ بنواتے ہوئے درد ہو رہا ہے تو کندھے پر شیر گُدوانے کا اعلان ہی نہیں کرنا چاہیے تھا!