مزدلفہ سے ہم پیدل ہی منیٰ ون کے لئے روانہ ہوئے کہ ٹرین تک پہنچنا اچھا خاصا دشوار تھا۔ ایک ہجوم تھا کہ سولنگ ٹریک پر چلتا جا رہا تھا۔ لوگوں کے رات قیام کے باعث جوس کی خالی بوتلیں قدم قدم پر بکھری پڑی تھیں جو ہمارے مزاج اور عادت کی غماضی کر رہی تھیں۔ ہم جہاں قیام کریں وہاں گند کیوں نہ پڑے۔ الجھن ہوتی رہی مگر سب ایک جذبے کے ساتھ چل رہے تھے کہ صبح کی تازگی بھی شامل حال تھی۔ پھر دھوپ بھی نکل آئی۔ ذکر اذکار کرتے تسبیہ اوردرود شریف پڑھتے قافلہ آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ میرے گمان میں تھا اور ٹھیک ہی تھا کہ ہم منیٰ ون اپنے خیمے میں جائیں گے اور پھر وہاں سے 89مکتب والے ایک گروپ کی صورت شیطان کو کنکریاں مارنے جائیں گے ہمیں گائیڈ کرنے والا خود بھی راہ پر نہ رہا۔ یہاں سعودی پولیس کی غلطی تھی یا انتظامی مجبوری کہ انہوں نے منیٰ ون کی طرف مڑنے والا رستہ بند کر رکھا تھا اور یوں انہوں نے ہجوم کو مڑنے نہیں دیا اور سیدھا جمرات کی طرف دھکیل دیا۔ ہم ذہنی طور پر اس کے لئے تیار نہیں تھے اس بوکھلاہٹ میں بہت سے لوگ ایک دوسرے سے بچھڑ گئے مجھے خود بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ جس گروپ میں بیگم اور بہن تھیں وہ سب آگے پیچھے ہو گئے اور پھر یہاں ایک لمحے کی غفلت بہت مہنگی پڑتی ہے۔ رات کے تھکے ماندے ہم سب چلتے ہی جا رہے تھے۔ ذہن اپنی بیگم اوربہن کی طرف تھا۔ پھر سوچا کہ پڑھی لکھی ہیں۔ آج منیٰ پہنچ جائیں گی۔ یہ سولنگ والی سڑک کافی کشادہ تھی۔ وہیں میری ہیلو ہائے ایک عربی سے ہو گئی۔ وہ انگریزی جانتا تھا میرے بارے میں جان کر بہت خوش ہوا او راس نے بتایا کہ اس کا نام المالکی ہے اور وہ سعودیہ کے ایک محکمے میں افسر ہے۔ پھر اس نے راستے میں ایک قیام گاہ دکھائی جہاں محمد بن سلطان کی تصاویر آویزاں تھیں اور کچھ غیر ملکی لوگوں کی سلائیڈ چل رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ دنیا بھر سے مسلمان سفیر یہاں ٹھہرتے ہیں اور اہم میٹنگز بھی ہوتی ہیں۔ اس نے حکومت کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے جمرات کے لئے ون وے ٹریفک بنا کر حاجیوں کو حادثات سے بچایا ہے۔ اس سے پہلے کئی حادثات ہو چکے ہیں۔ واپس آنے کے لئے ساتھ یہ دوسرا راستہ دیا گیا ہے اس راستے پر بھی ایک ہجوم واپس جاتا نظر آیا۔ خیر جونہی بڑا شیطان آیا المالکی مجھے خدا حافظ کہتے ہوئے اسی طرف لپکا۔ میں نے بھی سات کنکریاں بوتل سے نکالیں دوڑ کر کرائوڈ سے جگہ بناتے ہوئے تاک کر ایک ایک کر کے سات کنکریاں ماریں اور پھر واپسی کے راستے پر ہو لئے سائیڈز پر اوپر سے آہنی پائپ شاور سے پانی کی پھوار بھی گرتی جاتی ہے تاکہ موسم کی شدت محسوس نہ ہو۔ جمرات والی سولنگ پر تو جگہ جگہ بیت الخلا ہیں اور ڈسپنسری بھی مجھے نظر آئی حکومت کے لوگ بھی دستی فواروں سے لوگوں پر پانی پھینکتے ہیں جگہ جگہ پینے کا پانی بھی دستیاب تھا۔ چلتے چلتے میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ شیطان کو کنکریاں مارنا رمّی کہلاتا ہے اور شیطانوں کو جمارات کہتے ہیں۔ پہلے ایک بڑا شیطان ہے پھر اس سے چھوٹا اور مزید چھوٹا تیسرا شیطان رمّی کی ترتیب کچھ اس طرح ہے کہ مزدلفہ کے وقوف کے بعد فجر کی نماز سے لے کر اگلے روز کی فجر تک آپ بڑے شیطان کو سات کنکریاں مار سکتے ہیں۔ اس سے اگلے چھوٹے شیطان اور اس سے بڑے شیطان کو اور پھر سب سے بڑے شیطان کو بھی سات سات کنکریاں مارتے ہیں۔ خیر تیسرے روز بھی سات سات کنکریاں ہی دہرانی ہیں۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ دوسرے روز جوکنکریاں مارنی ہیں وہ زوال کے بعد مارنی ہیں اور اسی طرح تیسرے روز بھی زوال کے بعد دوسری بات یہ بتائی گئی کہ چھوٹے شیطانوں کو کنکریاں مار کر دعا مانگنی ہے جبکہ بڑے شیطان کو کنکریاں مارنے کے بعد دعائیں کرنی ہیں۔ بڑے شیطان کو تو ہم کنکریاں مار چکے تھے اور اگلے روزہمیں زوال کا انتظار کرنا تھا مگر علی الصبح حکومت کے نمائندے منیٰ کے کیمپوں میں اعلان کرتے پھر رہے تھے کہ رمّی کے لئے نکلو۔89مکتب میں اعلان کرنے والے سے میں نے پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ زوال سے پہلے ہی یہ کام کیا جائے اس نے بہت تسلی بخش جواب دیا کہ بہت زیادہ رش کے باعث مفتیان حرم نے فتویٰ دیا ہے کہ زوال کی قید ضروری نہیں اور وہ حکومت کی طرف سے آیا ہے کہ لوگ رمّی کے لئے نکالوں ۔اس کے بعد یہ فتویٰ چھپ بھی چکا ہے بعدازاں پتہ چلا کہ پاکستان کے مولانا محمد اسحاق کا فتویٰ پہلے بھی موجود ہے زوال کے بعد کنکریاں مارنا ضروری نہیں۔ رمّی کے لئے چار منزلہ ٹریک ہے ایسی سہولت کے باوجود رش کم نہیں ہوتا۔ شیطان تک کنکری کا پہنچنا بھی ضروری ہے ۔ کنکری ہاتھ سے گر جائے تو وہ بھی نہیں اٹھانی۔ نئی کنکری مارنی ہے۔ اس لئے لوگ اضافی کنکریاں بھی لے جاتے ہیں ایک اور بات یہ کہ اگر آپ پانچویں روز مزدلفہ کی حدود سے مغرب تک نہ نکلے تو آپ کو ایک اور رات منیٰ میں قیام کرنا پڑے گا اور اگلے روز پھر سات سات کنکریاں شیطانوں کو مارنا پڑیں گی۔ اسی بات کا فائدہ انتظامیہ اٹھاتی ہے یہ بسوں کے آنے کا وعدہ کرتی جاتی ہے اور تھکے ہارے حاجی جو پانچ روز کی مشقت سے بے حال ہوتے ہیں ڈرتے ہیں کہ ایک رات اور رہنا پڑے گا اور پھر وہاں پوچھنے والا کوئی نہیں ہو گا وہ بے چارے پیدل ہی منیٰ کی حدود سے نکل آتے ہیں۔ کنکریاں مارنے کے بعد قربانی اور حلق کا مسئلہ تھا،حلق یعنی ٹنڈ کرانا مسنون ہے۔بہرحال جن لوگوں نے قربانی کے پیسے پاکستان ہی میں جمع کروائے تھے انہیں مغرب کا وقت دیا گیا کہ حلق کروا کے احرام اتار دیں جبکہ سعودیہ میں پیسے جمع کروانے والوں کو صبح 10بجے کا وقت دے دیا گیا۔ وہاں حکومت کی طرف سے آنے والے مبلغ نے کہا کہ ’’جس چیز میں آپ کا اختیار نہیں اس میں آپ پر گرفت نہیں اور آپ کی گرفت صرف آپ کے بااختیار ہونے پر ہے۔قربانی کا وقت اگر دس بجے دیا گیا ہے تو اس پر آپ تشویش میں نہ پڑیں یہ قربانی کرنیوالے جانیں آپ کی قربانی ہو گئی۔