ہنسنا ہنسانا دوستو! ہنسنا ہنسانا عبادت بھی ہے، عیادت بھی اور سعادت بھی۔ ہمارا یقین سے بھی زیادہ پختہ خیال ہے کہ : زندہ دل ہونا ، زندہ ہونے سے بھی زیادہ اہم ہے کیونکہ زندہ ہونے کا تعلق طبیعات سے ہے اور زندہ دل ہونے کا طبیعت سے۔ سیانے کہتے ہیں کہ جب انسان دوسروں کی بجائے اپنے اوپر ہنسنا سیکھ لیتا ہے تو وہ انسانیت کے بلند ترین مقام پر فائز ہو جاتاہے۔ ہزاروں مخلوقات میں سے صرف حضرتِ انسان کو ہنسنے کا شرف بخشا گیا ہے، اگر وہ بھی ہنسنا چھوڑ دے تو آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ اس کائنات پر صرف جانور ہی رہ جائیں گے۔آپ نے کبھی کسی فوٹو گرافر کو دیکھا جو تصویر بناتے ہوئے یہ کہے: ذرا منھ بنانا…ذرا ماتھے پہ تیوری لانا… ذرا ناک سکیڑنا… بلکہ وہ ہمیشہ آپ سے مسکراہٹ کا مطالبہ کرتا ہے، حالانکہ اسے آپ کی خوشیوں سے کوئی غرض نہیں ہوتی، لیکن وہ جانتا ہے کہ آپ کی ایک سمائل اس کے آرٹ میں جان ڈال دے گی۔یعنی اسے بخوبی علم ہے کہ جو کام اس کا قیمتی سے قیمتی کیمرہ، مضبوط سے مضبوط لینز، بھاری سے بھاری میگا پِکسل نہیں کر سکتا، وہ آپ کی ایک مسکراہٹ کر دے گی۔ اب تو دنیا بھر کے معیاری تعلیمی اداروں میںاستاد کے لیکچر کو سپائسی یا من بھاونا بنانے کے رنگا رنگ طریقے تلاش کیے جا رہے ہیں۔اب تو یہ بیانیہ سامنے آنے والا ہے کہ جو ٹیچر اپنے درس کو مزے دار اور دلچسپ نہیں بنا سکتا، اسے کوئی اور کام تلاش کر لینا چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں دولت، سٹیٹس، لگژریز میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جب کہ قہقہے اور ہاسے بوریا بستر لپیٹنے میں مصروف ہیں۔ وقت کی چکی چلاتے چلاتے لوگوں کے منھ سے دانت نکل جاتے ہیں، ڈانٹ نہیں نکلتی۔ کنہیا لعل کپور کا کہنا ہے کہ دوسروں پر ہنسنے کے لیے صرف ایک بتیسی کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ اپنے اوپر ہنسنے کے لیے بہت بڑے حوصلے اور ظرف کی۔ لسان العرب میں مزاح کی تعریف ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: ’’ایسی ہنسی جو خیر اور تلطف پر مبنی ہو۔‘‘ اس وقت ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہمارے قہقہے ایک دوسرے کی بات کی بجائے، ایک دوسرے کی ذات تک محدود ہو گئے ہیں۔ بقول شاعر: اِک دوجے نال ہسنا سی پر اِک دوجے تے ہسنے پَے آں اس بات پہ بھی تقریباً سب دانشورمتفق ہیں کہ اچھے اور برے حالات میں زندگی گزارنا Part of Life ہے تو ہر طرح کی صورتِ حال میں مسکرانا Art of Life ہم جناب جعفر بلوچ کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ: قہقہوں سے جو غم ادا نہ ہوا کیا ادا ہوگا دیدۂ تر سے سید ضمیر جعفری اسّی سال کی عمر میں بھی فرمایا کرتے تھے: راکھ میں اِک چنگاری تو سلگائے رکھ بوڑھا ہونا مرنے سے تو بہتر ہے آئیے زندگی میں اپنے ارد گرد پھیلی مسکراہٹوں، تلملاتے قہقہوں، جھلملاتی ہنسی اور دلوں کے کنول کھلاتی زندہ دلی و حاضر جوابی کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ تم کسی سے کم ہو؟ جنرل واجد علی برکی کا شمار پاکستان آرمی کے نہایت با اثر اور منفرد جرنیلوں میں ہوتا تھا۔ معروف مزاح نگار جناب شفیق الرحمن سے ان کے نہایت قریبی اور بے تکلفانہ تعلقات تھے۔ ایک دن دونوں کا سی ایم ایچ راولپنڈی میں ٹاکرا ہو گیا۔ جنرل برکی نے شفیق الرحمن کو پیشکش کی کہ کیوں نہ آپ کو یہاں بطور سی او تعینات کرا دیا جائے ؟ شفیق الرحمن نے روایتی عجز و انکسار کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا : میں بھلا اس قابل کہاں؟ اس کے لیے کسی بہتر آدمی کا انتخاب کیجیے۔ اتنا سننا تھا کہ جنرل برکی نے شفیق الرحمن کو بازو سے پکڑا اور سی او کے دفتر کے اندر لے جا کر لوحِ اعزاز پہ لکھے ناموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’ دیکھو ! یہاں ایک سے ایک نالائق اور اُلو کا پٹھا بھرا پڑا ہے۔۔۔تم کسی سے کم ہو کیا؟‘‘ وقت وقت کی بات ہے آج سے چالیس سال قبل اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی سے کہتا کہ تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو، تو وہ غیرت کیس میں مارا جاتا۔۔۔ آج سے بیس سال قبل اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی سے کہتا کہ تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو، تو وہ جواب دیتی: تمھارے گھر میں کوئی ماں بہن نہیں ہے۔۔۔ اور آج اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی سے کہتا ہے کہ تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو تو وہ تین زبانوں میں شکریہ ادا کرتی ہے۔ نمکین غزل رات رنگین ہوتی جاتی ہے/بات سنگین ہوتی جاتی ہے آپ زردار بنتے جاتے ہیں/قوم مسکین ہوتی جاتی ہے جب سے شوگر کا بول بالا ہے/زیست نمکین ہوتی جاتی ہے ہونٹ مسکان پہ آمادہ ہیں/آنکھ غمگین ہوتی جاتی ہے پانچ، چھے، سات کرنا چاہتا ہوں/ایک ، دو ، تین ہوتی جاتی ہے پیروڈی ٹائم تو بھی گریجوایٹ ہے، میں بھی گریجوایٹ/تو بھی پرائیویٹ ہے ، میں بھی پرائیویٹ دفتر میں تیرے واسطے خالی پڑی ہے سیٹ/تو بھی اکاموڈیٹ ہو، میں بھی اکاموڈیٹ فیشن گردی نے پھیلائی ہر طرف انارکی/صاحبزادوں نے بڑھائیں رونقیں بازار کی