سینئر سیاستدان چودھری شجاعت حسین نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے تعلیمی نصاب کی تشکیل کا اختیار صوبوں کو منتقل ہونے کے بعد ناقابل برداشت نقصانات کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ چودھری شجاعت حسین وزارت عظمیٰ سمیت متعدد اہم ذمہ داریاں ادا کر چکے ہیں اور ان کی رائے کو قومی سطح پر اہمیت دی جاتی ہے۔ نصاب تعلیم کے متعلق ان کی فکر مندی کی وجوہات مختلف صوبوں میں اسلام‘ پاکستان اور افواج پاکستان کے متعلق منفی اثرات کا حامل مواد ہے جسے نصاب میں شامل کیا جا رہا ہے جبکہ طلباء کی دینی تعلیم اور وطن سے محبت کو فروغ دینے والے اسباق نصاب سے خارج کئے جا رہے ہیں۔ چودھری شجاعت حسین نے اس سلسلے میں جو مثالیں دی ہیں ان میں مفت تقسیم ہونے والی آٹھویں جماعت کی کتاب میں موجود عید میلاد النبیؐ ‘ شہید کربلاامام حسین ؓ ‘ حضرت بلالؓ ‘ فرمودات قائد اعظم‘ نشان حیدر اور تحریک پاکستان میں خواتین کا حصہ جیسے ابواب ختم کر کے نئے موضوعات کو شامل کرنا ہے۔ یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل کے پی کے اور دیگر صوبوں کے نصاب تعلیم میں بھی ایسی ترامیم کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں۔ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے۔ اس نظریاتی ریاست کے بانیان نے یہاں کے باشندوں کی ملی روایات‘ تہذیب اور ثقافتی شناخت کو اجاگر کرنے کے لئے رہنما اصول تلقین کئے ہیں۔ سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو اپنی زبان اور بطور قوم الگ سیاست کی نصیحت کی۔ حضرت علامہ اقبال نے خطبۂ الہ آباد میں برصغیر کے ان علاقوں کو الگ آزاد اور خود مختار حیثیت دینے کا تصور پیش کیا جہاں مسلمان آبادی اکثریت میں تھی۔1940ء میں لاہور کے منٹو پارک میں قرار داد پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی انفرادیت اور الگ تشخص کو ریاستی شکل میں منتقل کرنے کا مطالبہ تھا۔ پاکستان کے قیام کے بعد ہمیں نئے ادارے بنانا تھے۔ نئی پالیسیوں میں عصری و قومی ضروریات کو سمونا تھا۔ طلباء کو بتانے کی ضرورت تھی کہ مسلمان ہندوئوں سے الگ کیوں ہیں؟برصغیر کی یہ دونوں بڑی اقوام ایک ساتھ کیوں نہیں رہ سکتیں اور بطور پاکستانی مسلمان ہمیں کن اقدار کی پابندی کرنا ہے۔ قوم کو مضبوط بنانے کا عمل اس کے نظریات کی تعلیم سے ہوتا ہے۔ اسی لئے ہر ریاست اپنے نصاب کو قومی آگہی‘ فخر اور معلومات کی شکل میں تشکیل دیتی ہے۔ پاکستان کے خلاف سازشیں کئی رنگ میں رچائی جاتی رہی ہیں۔ ملک کے دشمنوں نے قوم سازی کا عمل کمزور کرنے کے لئے بارہا نصاب تعلیم پر وار کیا ہے۔ پاکستان کے معاشی مسائل نے عالمی طاقتوں کو بے جا مداخلت کا موقع دیا۔ہم نے جب کبھی کسی بین الاقوامی ادارے یا غیر ملک سے امداد و قرضہ حاصل کیا ساتھ ہی نصاب تعلیم میں تبدیلیوں کا مطالبہ بھی چلا آیا۔ مغربی ممالک نے پاکستان کے نصاب کو ہمیشہ اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا۔ افغان جہاد کا زمانہ ہو یا پرویز مشرف کے دور میں دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو۔ مفادات کی تبدیلی پاکستان کے نصاب تعلیم پر اثر انداز ہوتی رہی۔ یہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی جس نے نصاب میں شامل جہاد کی ترغیب دینے والی آیات اور اسباق کو خارج کرنے کی کوشش کی اور پاکستانی قوم کی تہذیبی اقدار کو صرف ثقافتی علوم کی شکل میں اجاگر کرنے کا چارہ کیا۔اٹھارویں آئینی ترمیم 2010ء کو منظور کی گئی۔ اس ترمیم کے نتیجے میں شمال مغربی سرحدی صوبے کے لوگوں کو خیبر پختونخواہ کا نام ملا‘ صدر سے 58ٹو بی کا ہتھیار واپس لے لیا گیا۔ آئین میں فوجی آمروں کی شامل ترامیم کو خارج کر دیا گیا۔ اس ترمیم کی سب سے نمایاں خصوصیت صوبائی خود مختاری کا احترام ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد کئی ٹیکسوں کی وصولی اور متعدد محکمہ جات کا کنٹرول صوبوں کو منتقل کر دیا گیا۔ تعلیم اور اس کے ذیلی امور بھی صوبوں کو منتقل ہو گئے۔ توقع یہ تھی کہ صوبائی حکومتیں قومی شناخت اور نظریاتی بنیادوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مقامی موضوعات کو شامل کر کے نصاب میں بہتری لائیں گی۔ تحریک پاکستان کے مقامی رہنمائوں کا تعارف نصاب کا حصہ بنایا جا سکتا تھا۔ مقامی ثقافت اور جغرافیہ کو موضوعات میں شامل کیا جا سکتا تھا مگر دکھائی یہ دیا کہ نصاب میں تبدیلی قومی ضروریات سے زیادہ بیرونی مطالبات کو پیش نظر رکھ کر کی جا رہی ہے اور پاکستان کے اسلامی تشخص کو پامال کرنے کے لئے بعض عناصر نصاب تعلیم میں من مانی تبدیلیاں کر رہے ہیں تاکہ یہ مدینہ کی ریاست میں نہ ڈھل سکے۔ ریاست مدینہ حضور اکرم ﷺ اوراہلبیت و صحابہ کرام ؓکی پیروی سے وجود میں آ سکتی ہے۔ ان کے ذکر کو تعلیمات سے خارج کرنے سے نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان ریاست مدینہ جیسا مثالی نظم قائم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ وہ اپنی تقاریر میں اکثر ایسی مثالیں دہراتے ہیں جو مثالی مسلم ریاست سے منسلک ہیں۔ یقینا جدید شہری مسائل اور عصری علوم نوجوان نسل کی علمی استعداد بڑھانے کے لئے ناگزیر ہیں۔ ایسے موضوعات کو نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ سائنس اور لاجک سوچنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سائنس اور مذہب میں تصادم کی صورت حال پیدا کر دی جائے۔ ریاست مدینہ اپنے عہد کے جدید تصورات سے آراستہ تھی۔ ہر شہری خوشحال اور مطمئن تھا۔ لوگ محفوظ تھے اور ریاست کے عمال دیانت داری سے فرائض انجام دیتے تھے۔ اس صورت حال کا تقابل جب آج کے پاکستان سے کرتے ہیں تو بہت سی خامیاں ابھر کر سامنے آ جاتی ہیں۔وزیر اعظم عمران خان کو اس حساس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔ ان کی ناک کے نیچے ایسے لوگ موجود ہیں جو ملک کی نظریاتی شکل کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ایسی کوششیں پہلے بھی ہوتی رہیں اور سوائے انتشار کے ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ چودھری شجاعت نے بروقت ایک معاملے کی نشاندہی کی ہے۔ وزیر اعظم سے توقع ہے کہ وہ ایسی کوششوں کو روکنے کے لئے صوبائی حکومتوں سے بات کریں گے۔