’’یہاں ایک بزرگ ہیں۔ عابدی صاحب! آپ کا پوچھ رہے تھے‘‘ دس برس قبل پہلی بار میلبورن پہنچا تو بیٹے نے عابدی صاحب کے بارے میں بتایا۔ کوئی تقریب تھی جس میں یہ دونوں مدعو تھے بات چیت چل نکلی وہ جو کہتے ہیں ڈاک خانہ مل جانا۔ تو ڈاکخانہ مل گیا۔ عابدی صاحب کو معلوم ہوا کہ اسرار میرا بیٹا ہے تو کہنے لگے’’بھائی! وہ تو ہمارے ساتھ تھے۔پاکستان آرڈیننس فیکٹریز واہ میں! ہم بھی بورڈ کے ممبر تھے اور وہ بھی!‘‘ ساتھ ہی انہوں نے فرمائش کی کہ اظہار صاحب آئیں تو میرا ضرور بتانا‘ چنانچہ میلبورن پہنچے چند دن ہوئے تھے کہ بیٹے نے ان کا ذکر کیا اور سلام پہنچایا۔ فلم چلی اور میں 1992ء میں پہنچ گیا۔ خلیج کی جنگ کا زمانہ تھا۔ میری تعیناتی واہ فیکٹریز میں بطور مشیر مالیات اور ممبر بورڈ تھی۔ پی او ایف اصل میں چودہ فیکٹریوں کا مجموعہ ہے جو حویلیاں سے لے کر سنجوال تک پھیلی ہوئی ہیں۔ معاملات‘خواہ انتظامی ہوں یا ٹیکنیکل یا مالی‘ بورڈ کے پاس مکمل اختیارات ہوتے ہیں۔ بورڈ کے چار ممبران ہوتے ہیں اور ایک چیئرمین۔ عابدی صاحب ممبر ٹیکنیکل تھے یعنی تمام تکنیکی معاملات کے انچارج۔ نرم گفتار۔ وضعدار ادب آداب سے بھرے ہوئے! ایک ہی بورڈ کے ممبر ہونے کے باوجود ان سے زیادہ تعلقات اس زمانے میں نہیں تھے کیوں کہ ہمارے دائرہ ہائے کار مختلف تھے۔ ممبرمالیات کا ٹاکرہ زیادہ تر چیئرمین ہی سے ہوتا تھا۔ جیسے ہی بیٹے نے بتایا‘ عابدی صاحب کو فون کیا۔ یہ رابطہ اٹھارہ سال بعد ہو رہا تھا۔ بہت خوش ہوئے کہنے لگے ملاقات ہونی چاہیے۔ ایک دن میں اور بیگم ان کے ہاں جا پہنچے! وہ اور ان کی بیگم صاحبہ دو کمروں کے ایک نیم اپارٹمنٹ نما گھر میں رہ رہے تھے۔ انہوں نے آسٹریلیا منتقل ہونے کا قصہ سنایا۔ ایک بیٹا تھا اور ایک بیٹی۔ بیٹی امریکہ میں تھی بیٹا سفید فام بیوی کے ساتھ آسٹریلیا میں رہ رہا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد عابدی صاحب دوراہے پرکھڑے تھے۔ بیٹا اور اس کی انگریز بیگم تو ان کے پاس پاکستان میں منتقل ہونے سے رہے! کیا انہیں بیٹے کے پاس آسٹریلیا چلے جانا چاہیے؟ اگر پاکستان میں رہیں تو ان کا خیال تھا کہ اپنا کوئی بھی پاس نہیں ہو گا۔ آسٹریلیا منتقل ہو جائیں تو کم از کم بیٹا تو پاس ہو گا۔ پھر سوچتے جہاں ساری زندگی گزاری‘ وہاں سے عمر کے اس حصے میں ہجرت کیسے کریں؟ یہ گومگو کی کیفیت طویل عرصہ ان کے درپے رہی آخر کار فیصلہ کیا کہ مستقل منتقل ہونے کے بجائے جا کر کچھ عرصہ قیام کر کے دیکھتے ہیں کہ کیا وہاں رہنا راس آ رہا ہے یا نہیں۔ چنانچہ پانچ سال یہ معمول رہا کہ آسٹریلیا جاتے۔ کچھ مہینے رہتے‘ پھر واپس پاکستان آ جاتے۔ آخری فیصلہ آسٹریلیا میں مستقل قیام کا کیا۔ بیٹے کی موجودگی کے علاوہ اعلیٰ میڈیکل سہولیات کی بھی کشش تھی۔ پاکستان میں جو کچھ ان کی جمع پونجی تھی۔ سمیٹی اور میلبورن میں یہ اپارٹمنٹ نما گھر خرید لیابیٹے کا گھر قریب ہی تھا۔ سفید فام بہو بھی آتی جاتی رہتی۔ پوتے بھی ملتے۔ مگر مجموعی طور پر عابدی صاحب اور بیگم صاحبہ اپنا خیال خود ہی رکھ رہے تھے۔ بیگم صاحبہ پاکستان میں علیل رہتیں۔ آسٹریلیا کے ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ یہ علالت گندم کی وجہ سے ہے کیوں کہ گندم میں موجود گلوٹن(Gluten)ان کے مزاج کو راس نہیں آ رہی۔ چنانچہ بیگم صاحبہ اپنی روٹی جَو کے آٹے کی پکاتی تھیں۔ ہم تین چار گھنٹے عابدی صاحب کے ہاں رہے۔ دوپہر کا کھانا وہیں کھایا۔ بازار سے سودا سلف بیگم صاحبہ خود لاتیں۔ عابدی صاحب کی خوابگہ الگ تھی اور بیگم صاحبہ کی الگ۔ صاحبزادی سال میں ایک بار امریکہ سے ملنے آتی تو لائونج میں سوتی۔ ان ملکوں میں اٹیچڈ باتھ روم کا تصورناپید ہے۔ یہ عیاشی پاکستان ہی میں ہے کہ چھ بیڈ روم ہیں تو چھ ہی باتھ روم ہیں ولایتی ملکوں میں بہت ہوا تو ماسٹر بیڈ روم میں ایک اٹیچڈ باتھ روم ہوتا ہے اور باقی سارے گھر کے لئے ایک! عابدی صاحب اس وقت اسی سال کے لگ بھگ تھے۔ ہر روز ایک گھنٹہ سیر کرتے۔ میڈیکل سہولیات سے بہت مطمئن تھے بلکہ خوش! صحت کے حوالے سے کچھ پیچیدگیاں تھیں۔ دل کے معاملات تھے۔ پیشاب کی تکلیف تھی۔ جس معیار کا علاج وہاں میسر تھا اور ہسپتال میں جتنی دیکھ بھال ہوتی تھی‘ اس کا پاکستان میں تصور بھی ناممکن تھا۔ پنشن پاکستان میں جمع ہوتی رہتی کبھی جاتے تو اکٹھی لے لیتے۔ میں نے بتایا کہ پاکستان ہائی کمیشن کے ذریعے پنشن ہر ماہ آسٹریلیا میں بھی وصول کی جا سکتی ہے۔ یہ کام انہوں نے میرے ہی ذمے لگایا۔ میں نے اپنے ماڑے موٹے غریبانہ عاجزانہ روابط استعمال کئے اور ماہانہ پنشن انہیں آسٹریلیا ہی میں ملنا شروع ہو گی۔ پاکستان کے سیاسی حالات سے بے پناہ دلچسپی تھی۔ فون پر لمبی بات ہوتی۔ پاکستانی اخبارات انٹرنیٹ پر باقاعدگی سے پڑھتے ای میل کرتے رہتے۔ ایک سال بعد میں پھر میلبورن میں تھا۔ انہیں کھانے کی دعوت دی۔ وہ اور بیگم صاحبہ ٹرین پر آئے میں بیٹے کے ساتھ ریلوے اسٹیشن پر انہیں لینے کے لئے موجود تھا۔ کھانا کھا کر ایک مہذب اور اعلیٰ اخلاق کے مالک شخص کی طرح کھانے کی تعریف کی اور میری بہو اور بیگم کا باقاعدہ شکریہ ادا کیا۔ گزشتہ نو سال کے دوران آسٹریلیا جب بھی جانا ہوا ان سے برابر رابطہ رہا۔ ہمیشہ ان کی تنہائی کا احساس رہا۔ یہ بھی سوچتا کہ علاج سے قطع نظر پاکستان میں ان کے پاس ملازم ہوتے ڈرائیور ہوتا اورزندگی شاید زیادہ آرام دہ ہوتی۔ مگر اب وہ آسٹریلین تھے اور ان کا عہد پیری اسی انداز میں گزرنا تھا جیسے اس ملک میں دوسرے بوڑھوں کا گزرتا ہے۔ یعنی دستِ خود‘ دہان خود! اپنی مدد آپ! اب کے مارچ کے آخر میںمیلبورن پہنچا کچھ دن کے بعد حسب معمول عابدی صاحب کو فون کیا۔ موبائل وہ رکھتے نہیں تھے۔ لینڈ لائن نمبر تھا۔ کافی دیر گھنٹی بجتی رہی کسی نے نہیں اٹھایا ۔سیاہ رنگ کا ایک سایہ دل میں لہرایا مگر صرف ایک ثانیے کے لئے ! دونوں میاں بیوی گھر سے نکلے ہوئے ہوں گے۔ بیگم کو بتایا۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ پھر کسی وقت کر کے دیکھ لیجیے۔ ایک ہفتہ گزر گیا۔ پھرفون کیا کسی نے جواب نہ دیا اب کے ماتھا ٹھنکا۔ ڈاکٹر منصور کا تعلق واہ ہی سے ہے۔ کینبرا میں ہوتے ہیں اور عابدی صاحب سے خاندانی تعلقات رکھتے ہیں۔ ان سے پوچھا۔ کہنے لگے عابدی صاحب وفات پا گئے۔ کئی ماہ ہو چکے ہیں۔ انہوں نے گمان ظاہر کیا کہ بیگم صاحبہ بیٹی کے پاس امریکہ چلی گئی ہوں گی! دو ماہ ہونے کو ہیں عابدی صاحب کا سفر آخرت ذہن سے نہیں نکل رہا۔ کیا زندگی تھی پاکستان میں ان کی! اعلیٰ ترین عہدہ! خدام کی ریل پیل۔ باورچی‘ ڈرائیور‘ بٹلر‘ خاکروب! اور آخری حصہ ولایت میں کیسے گزرا۔ تنہائی! ہر کام بدستِ خود! سوشل لائف نہ ہونے کے برابر! آخری وقت میں ان کے پاس صرف بیگم صاحبہ ہوں گی! کیا پتہ بیٹا کس وقت پہنچا۔ یہاں کی مشینی زندگی میں خواہش کے باوجود بیٹے وقت پر نہیں پہنچ سکتے۔ جنازہ واہ میں ہوتا تو سینکڑوں لوگ صفیں باندھتے یہاں مسجد میں وہی لوگ ہوں گے جو نماز کے وقت موجود تھے! زیادہ سے زیادہ چند درجن!ان ملکوں میں لاکھ سہولیات سہی۔ بہت کمفرٹ سہی! مگر مرنا اپنے ملک ہی میں چاہیے! دوسری طرف’’بای ارض تموت‘‘ کی تلوار ہر ذی روح کے سر پر لٹکی ہے۔ کسی کو نہیں خبر کہ ڈھیری کہاں بنے گی۔ بہر طور‘ خدا کی پناہ مانگنی چاہیے اس حال سے کہ ؎ مارا دیارِ غیر میں مجھ کو وطن سے دور رکھ لی مرے خدا نے مری بے کسی کی لاج