دو ایسے مواقع ہوتے ہیں، جب ہمارے کالم نگار کھل کھیلتے ہیں، جوبن پر آ جاتے ہیں۔ ایک جب کوئی نامور ادیب یا کوئی اور مشہور ہستی دنیا سے رخصت ہوتی ہے تب چند آہیں بھرنے کے بعد آنکھ میں نہ آئی ہوئی نمی پونچھ کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ ادیب تو ان کا عزیز ترین دوست تھا، وہ ان فرضی ملاقاتوں کی یادیں تازہ کرتے ہوئے غمگین ہوتے ہیں۔ ہر ملاقات کے مکالمے ان کو منہ زبانی یاد ہوتے ہیں اور ان مکالموں میں کالم نگار کی شاعری، ادب اور شخصیت کی جو توصیف انتقال کر جانے والے نے کی تھی اس کا تفصیلی تذکرہ ہوتا ہے۔ اس لیے کہ فوت ہو جانے والا شخص قبر سے اٹھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضور میری ماں مر جائے، اگر میں نے یہ سب کچھ کہا ہو۔ چنانچہ وہ کھل کھیلتے ہیں جیساکہ عبداللہ حسین اور یوسفی صاحب کی موت پر ہوا۔ دوسرا موقع جب کالم نگار جوبن پر آتے ہیں وہ ہوتا ہے جب ایک نئی حکومت اقتدار سنبھالتی ہے تب یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ قارئین آپ تو جانتے ہیں کہ اس حقیر، پُرتقصیر، بندہ فقیر نے شروع دن سے بی بی صاحبہ، میاں صاحب یا خان صاحب کو اس قوم کا نجات دہندہ قرار دیا تھا۔ ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ ہماری قسمت میں ایک نابغہ روزگار، دشمنوں سے برسرپیکار، ایماندار، دین دار لیڈر آ گیا ہے، آئیے اس کی عظمت کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ مجھے متعدد بار ان سے شرف ملاقات حاصل ہو چکا ہے بلکہ اب سے کیا وہ میاں صاحب یا خان صاحب تو میرے لنگوٹیے تھے وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمہید میں نے صرف اس لیے باندھی ہے کہ میرے پچھلے کالم ’’انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند رے‘‘ ہر سوشل میڈیا میں بہت کھلبلی مچی کہ تارڑ صاحب کیوں سیاسی ہو گئے ہیں، انہیں غیر جانبدار رہنا چاہیے، کیا وہ نئی حکومت میں کسی عہدے کے خواہش مند ہیں تو حضور میں اجتناب کرتا ہوں، بیان کرنے سے، کہ کتنی بار مختلف حکومتوں کے عہد میں مجھ حقیر کو کیسی کیسی نہایت اعلیٰ پیش کشیں ہوئیں، دور کیا جانا محترم مشاہد حسین صاحب سے دریافت کرلیجئے کہ جب 2000ئ، کو ٹور زم کا سال قرار دیا گیا تھا تو انہوں نے منسٹرز اینکلیومیں اپنے گھر مدعو کر کے مختلف مرکزی سیکرٹری حضرات کی موجودگی میں مجھے وزیراعظم کے ٹورزم کے مشیر کی حیثیت سے کام کرنے کی دعوت دی تھی۔ باقاعدہ تمام مراعات کے ساتھ۔ میں نے انکار نہیں کیا صرف یہ گزارش کی کہ میں نے ساری عمر ملازمت نہیں کی۔ میں نو بجے سے پانچ بجے تک فائلوں میں غرق ہونے و الا شخص نہیں ہوں۔ چاہے یہ ملازمت وزیراعظم کے سایہ عاطفت میں ہی کیوں نہ ہو۔ البتہ ٹور ازم کے فروغ کے لیے میں میڈیا پر کام کرنے کو تیار ہوں۔ علاوہ ازیں پیپلزپارٹی کے پہلے بھٹو عہد میں راجہ انور نے جو پیشکش کی تھی اسے بیان کیا کروں، اگر میں پچھلے پچیس تیس برس سے اردو فکشن میں بیسٹ سیلر ہوں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں غیر جانب دار ہو کر ایک دیوار پر بیٹھا تماشا دیکھتا رہوں۔ میری حیات ایک کھلی کتاب ہے۔ میں نے آج تک کسی سٹیج پر کسی بے نظیر، کسی میاں صاحب وغیرہ کے زندہ باد کے نعرے نہیں لگائے۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ میری ایک ہی سدابہار پارٹی ہے اور وہ ہے پاکستان۔ میں صرف اور صرف پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتا آیا ہوں۔ اگرچہ یہ ایک خسارے کا سودا تھا۔ ان تمام حقیقتوں کے باوجود مجھے حق ہے کہ میں سیاسی طور پر اگر کسی کو پسند کرتا ہوں تو اس کا اظہار کروں۔ مجھے فی الحال اگر عمران خان پسند ہے تو کیا فساد خلق کے ڈر سے میں اس کا اظہار نہ کروں۔ میرے پڑھنے والے، میری تحریروں کو پسند کرنے والے مجھ سے یہ توقع مت کریں کہ صرف ان کی خوشنودی کی خاطر میں اپنے منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھا رہوں۔ عمران کی پسندیدگی، فی الحال ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ یہ ٹیلی ویژن کی صبح کی نشریات کا قصہ ہے، ان آٹھ برسوں کے دوران مسلسل میزبانی کے دوران ہر سویر کوئی نہ کوئی شخصیت میری مہمان ہوا کرتی تھی۔ تو ایک سویر میں نے عمران خان کو اپنے شو میں مدعو کیا کہ ان دنوں ان کی ایک باتصویر کتاب پاکستان کے شمال کے حوالے سے شائع ہوئی تھی۔ میں نے مشہور کوہ پیما کرنل شیر خان کو بھی اس پروگرام میں دعوت دی۔ نشریات کے اختتام پر حسب روایت معزز مہمانوں کو چائے کی ایک پیالی پر ٹھہرا لیا گیا۔ خان صاحب خوشگوار رفاقت ہرگز نہ تھے۔ اپنی ٹھوڑی پر مٹھی جمائے کچھ ناراض ناراض سے بیٹھے رہے۔ یہ ان کی طبیعت تھی جس کے تحت وہ آسانی سے ہر شخص کے ساتھ ’’گلّو مٹھّو‘‘ نہیں ہو جاتے تھے۔ عین ممکن ہے اور نہیں بھی ممکن، کہ ان کی ناراضی کا سبب اس برس کا گیلپ سروے تھا۔ اس گیلپ سروے کے مطابق پاکستان بھر میں پسندیدہ افراد کی فہرست میں، میں سرفہرست تھا اور عمران خان شاید تیسرے یا چوتھے نمبر پر تھے اور گیلپ سروے کو ٹاپ کرنے کا واحد سبب صبح کی نشریات کی مسلسل میزبانی تھی۔ میری جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو اسے بھی یہی مقبولیت حاصل ہوتی۔ اس میں میری قابلیت یا چہرے کا کچھ کمال نہ تھا۔ اگر ہر صبح پاکستان کے واحد ٹیلی ویژن کی سکرین پر نمودار ہو کر ’’السلام علیکم پاکستان اور پورے پاکستان‘‘ کے آغاز کے ساتھ آٹھ برس تک نمودار ہوتے ہی چلا جائے اور پورے پاکستان میں سندھ، بلوچستان میں ہی نہیں ہندوستان کے راجستھان میں بھی نمودار ہوتا چلا جائے تو گیلپ کا سروے اور کیا کرتا۔ چنانچہ عمران خان مجھے اس سویر لکڑی کے چہرے والا ایک شخص لگا۔ اس دوران اس نے کرنل شیر خان کو مخاطب کر کے پوچھا، کرنل صاحب، آپ ہنزہ کے ہیں، مجھے مشورہ دیجئے کہ اس برس میں آپ کے شمال کے کون سے ایسے خطے میں جائوں، بلکہ پہاڑوں میں واقع کون سی برفانی وادی تک سفر کروں؟ اس پر کرنل شیر خان نے کہا ’’ہم شمال والے اپنے شمال کو اتنا نہیں جانتے جتنا تارڑ صاحب جانتے ہیں۔ ہم تو گمنام تھے ان کے شمال کے سفرناموں نے ہمیں متعارف کروایا تو ان سے پوچھئے۔‘‘ عمران خان نے بادل نخواستہ کہا ’’تارڑ صاحب آپ بتائیے، اس برس کہاں کا رخ کروں؟‘‘ میں نے حسب توفیق کچھ بلندیوں اور کچھ برفانی وادیوں کی نشاندہی کی اور پھر پوچھا ’’خان صاحب، مجھے معلوم ہے کہ آپ بھی شمال کے عشق میں مبتلا ہیں اور میں جانتا ہوں کہ آپ اپنے ساتھ کچھ غیر ملکی سیاحوں کو بھی لے جاتے ہیں۔ بشام کے پی ٹی ڈی سی ہوٹل میں قیام کرتے ہیں۔ ہوٹل کے منیجر شیرستان نے پچھلے برس مجھے بتایا کہ تارڑ صاحب ابھی ابھی عمران خان صاحب کچھ غیر ملکی دوستوں کے ہمراہ بشام میں تھے اور ایک شام دریائے سندھ کے کناروں پر خان صاحب مسحور ہو کر بیٹھے ہوئے تھے تو۔ اب آپ مشورہ دیتے کہ اس برس میں کہاں جائوں۔ اس شمال کے تذکرے سے عمران خان کا پتھر چہرہ پگھل چکا تھا۔ اس کا چہرہ یوں دمکنے لگا تھا جیسے کسی برفزار پر سورج کی پہلی کرنیں اترتی ہیں اور یاد ہے کہ یہ ان زمانوں کے قصے ہیں جب آتش تقریباً جوان تھا اور عمران خان ایسا جوان رعنا تھا کہ نانگا پربت کی برفوں میں جو برف کی شہزادیاں تھیں، وہ بھی اسے دیکھ کر پگھل جاتیں۔ تارڑ صاحب، درہ برزل کے پار منی مرگ کی وادی میں جسے دیکھ کر مرجانے کو جی چاہتا ہے، وہاں جائیے۔ اس برس عمران خان کی پسندیدہ ترین شمال کی وادی منی مرگ تک جا پہنچا۔ اور واقعی ’’منی مرگ‘‘ ایک ’’مختصرموت‘‘ تھی جی میں آتا ہے کہ یہیں مر جائیے اور یہ عمران خان تھا جس نے مجھے اس مختصر مو