مکرمی ! پنجاب میںبیس سال پہلے ایک تحصیل کے تمام مریضوں کے علاج کیلئے جتنا میڈیکل و پیرا میڈیکل سٹاف تھا آج آبادی میں شدید اضافے کے بعد بھی انکی اتنی ہی سیٹیں ہیں۔ جہاں پہلے ان سنٹرز میں دس زخمی مریض آتے تھے وہاں اب 200 آتے ہیں، لیکن سٹاف پہلے جتنا ہی، اور ہے بھی غیر تربیت یافتہ۔ایسا نہیں ہے کہ ہسپتالوں کے ایم ایس، ضلعی چیف ایگزیکٹوز اور دوسرے ہیلتھ پروفیشنلز کو اسکا علم نہیں ہے بلکہ اصل میں مریضوں کا شدید لوڈ اور سٹاف کی کمی، بے ہنگم ایمرجنسی اور اسے پیدا شدہ روزانہ کے پھڈے، ٹاپ ہیلتھ مینجرز کا ایم ایس حضرات کو فضول کی ڈاکومینٹیشن اور اپڈیٹس میں الجائے رکھنا، اور ان سب ایم ایس حضرات کی اپنی ڈنگ ٹپاوء پالیسی اسکی ذمہ دار ہے۔فی الوقت صورت حال یہ ہے کی کوئی مرتا ہے تو مر جائے اپنا وقت نکالو بس۔ بے مقصد انڈیکٹرز پورے کرو بس۔پاکستانی قوم کے ہر پڑھے لکھے اور باعقل نوجوان کو چاہئے کہ اپنے گھر والوں اور قریب کے سب لوگوں کو سٹرلائزیشن کی معلومات دے اور بچنے کے طریقے سمجھائے۔ اس ملک میں محکمہ صحت کی ترجیحات شاید کہ کبھی تبدیل نہ ہوں، شاید عوام چاہتی بھی نہیں ہے ہر ذہ شعور آدمی پہلے سٹرلائزیشن کی اہمیت کو سمجھے اور پھر سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتال کے ٹراما سنٹر جا کر لازمی دیکھے کہ کہاں غلط ہو رہا اور پھر نوٹس میں لائے۔ ( ڈاکٹر ساجد ملک)