حال ہی میں ہالینڈ میں انتخابات ہوئے ہیں۔ یہ انتخابات قبل از وقت کرائے گئے ہیں کیونکہ مخلوط حکومت پر مخالفین کا الزام تھا کہ اس نے کورونا وائرس کی روک تھام میں لاک ڈاون کا استعمال غیر ذمہ داری سے کیا جس کی وجہ سے کاروبار اور معمولات زندگی متاثر ہوئے ۔ کوئی تحریک نہیں چلی ، جلسے جلوس نہیں ہوئے، عوام کے رائے جاننے کے لیے حکمران اتحاد نے از خود انتخابات کا فیصلہ کیا تاکہ حقیقت حال واضح ہوسکے۔حکمران پارٹی اور حلیف زیادہ اعتماد کے ساتھ واپس آئے ہیں۔ دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کو کاری ضرب لگی ہے ، فورم برائے جمہوریت کو فائدہ ہوا ہے کہ پچھلے انتخابات کے نسبت اس کی سیٹیں دوگنا بڑھ گئی ہیں۔ اکثریتی پارٹی اور اسکی حلیف جماعت نے اپنے اپنے ایلچی مقرر کردیے ہیں جو دیگر کامیاب جماعتوں کی خواہشات اور ان کے مطالبات کا جائزہ لیں گے اور اکتیس مارچ تک جب پہلی اسمبلی بیٹھے گی تو اس وقت قائد ایوان کا چنائو کر لیا جائیگا۔ یوں معاملات اپنی ڈگر پر چل پڑیں گے۔ ادھر بائیڈن انتظامیہ اپنے چار سالہ سفر پر روانہ ہوچکی ہے ، بظاہر اس نے آتے ہی میدان مارلیا ہے۔ تقریبا ًدو کھرب ڈالر کا کورونا ریلیف بل کانگریس سے پاس ہوگیا ہے اورحکمران پارٹی اپنی کامیابی پرجشن منا رہی ہے۔ قومی خزانے سے ملنے والی امداد سے جہاں لاکھوں خاندانوں کو سہارا ملے گا وہیں پر بحالی پیکیج کی ایک خطیر رقم سڑکوں ، پلوں ، پانی کی ترسیل کے منصوبوں پر بھی خرچ ہوگی۔ اگر ریپبلکن پارٹی اس بل کی مخالفت کرتی تو اس کی صفوں میں پھوٹ پر سکتی تھی کیونکہ عوامی بھلائی کے ترقیاتی منصوبوں کی مخالفت کرنا سینیٹرز کو مہنگا پڑسکتا ہے۔ ڈیموریٹک پارٹی جانتی ہے کہ اگر اس نے انتخابی مہم کے وعدوں پر پورا اترنا ہے تو اسے حزب اختلاف کے تعاون کی ضرورت پڑے گی۔ ایوان زریں پر ڈیموکریٹس کی اجارہ داری ہے لیکن سینیٹ میں معاملہ برابر کا ہے۔ الیکشن دور کی تلخیاں ا بھی تک برقرار ہیں، جبکہ ٹرمپ کے اکسانے پر عوامی نمائندگان کی عمارت پر ہوئے بلوے کی یاد ابھی تازہ ہے۔ ہربار ایسا بھی نہیں ہوگا کہ آئینی بل کے ساتھ کوئی ترقیاتی پیکج بھی نتھی ہو۔ جس خطرے کو محسوس کیا جارہا وہ یہ ہے کہ ریپبلکن سینیٹرز کسی بل پر اعتراض کی صورت میں غیرمعمولی طور پر لمبی تقریر یںکرسکتے ہیں جو آئین سازی میں معمولی تاخیر کا باعث بن سکتی ہیں۔ امریکی تاریخ میں لمبی ہانکنے کے اس حق کے استعمال کا زیادہ سے زیادہ دورانیہ چوبیس گھنٹے ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس عمل سے نجات کے لیے کافی عرصے سے بات ہورہی تھی لیکن حکمران پارٹی اب اس پر تلی نظر آتی ہے کہ قواعد وضوابط تبدیل کرکے اسے ختم ہی کردیا جائے۔ ابھی تک اسکے اپنے دو سینیٹرز مخالفت میں سامنے آئے ہیں لیکن حالات جس سمت میں جارہے ہیں لگتا ہے پارٹی اس حوالے سے اپنے اندر یکجہتی پیدا کرلے گی۔ نمائندگان کی مخالف پارٹی کے بلوں پر لمبی ہانکنے کی روایت کوسردجنگ کے زمانے سے چلی آرہی بدعت گردانا جارہا ہے جس کے ذریعے امریکہ اور روس کے درمیان ہم آہنگی کی کوششوں کو سبوتاژ کیا گیا اور اقلیتوں کے حقوق کی راہ میں روڑے بھی اٹکا ئے گئے۔ ریپبلکن پارٹی کے قائد نے خبردار کیا ہے کہ حکمران پارٹی نے سینیٹرز کے حقِ تقریر پر مکمل پاپندی لگانے کی کوشش کی تو اسے منہ کی کھانا پڑے گا ، آئین سازی کا بائیکاٹ کیا جائے گا کہ دنیا اوباما اور ٹرمپ دور کے آئین سازی کے بائیکاٹ کو بھول جائے گی۔ سیاسی ناچاقی کے معاملے میں پاکستان کے حالات امریکہ سے مختلف نہیں ہیں۔ ابھی حکومت نے اپنا آدھا وقت مشکل سے پورا کیا تھا کہ اسے ایک عالم سیاسی راہنما کی طرف سے’’ناپاک ‘‘قراردیکر ایوان اقتدار سے باہر کرنے کی جدوجہد شروع ہوگئی۔ انتخابات میں ہاری دس پارٹیاں اکٹھی ہوئیں اور کورونا کے دنوں میں ہی حکومت گرانے کی مہم پر نکل کھڑی ہوئیں۔ مظاہرے، جلسے اور ان میں کی جانیوالی شعلہ بیانیوں سے ہوتے ہوئے معاملات وہیں پر آن کھڑے ہوئے ہیں جہاں سے شروع ہوئے تھے۔ پارلیمانی اجلاسوں کے دوران ہلڑ بازی اور طوفان بد تمیزی دیکھنے کو ملتا ہے تو اہم قومی امور آئین سازی کا کام ٹھپ ہے ، بجٹ سازی ایف بی آر کے متھے کب سے ماری ہوئی ہے کہ کم ازکم یہ عمل تو سیاست کی نظر نہ ہو۔ افراط زر (مہنگائی) جیسے انتظامی مسئلے کو سٹیٹ بنک پر چھوڑا ہوا ہے کہ وہ اسے حل کرے۔ سٹیٹ بنک نے شرح سود سات کے ہندسے پر رکھی ہوئی ہے ، مہنگائی تو کیا کم ہوگی مقامی بنکوں کا بھلا ہورہا ہے جو حکومت کی قرضے کی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔ ملکی بجٹ کا اکتالیس فیصد ان پر سود کی ادائیگی پر خرچ ہوجاتا ہے۔ سیا ست میں ایک دراڑ پر چکی ہے جس کے پاٹنے کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اب تحریک بحالی جمہوریت کی نو جماعتوں کا کہنا ہے کہ چھبیس مار چ کے مجوزہ لانگ مارچ سے پہلے حکومت گرانے کے انتہائی قدم، اسمبلیوں سے استعفوں ، کا وقت آن پہنچا ہے۔ لیکن دسویں پارٹی کا موقف ہے کہ پہلے لانگ مارچ اور استعفوں کے معاملے کو الگ رکھا جائے اور یہ کہ اس بارے میں وہ فیصلہ اپریل کے پہلے ہفتے میں کرے گی۔ یوں لانگ مارچ کا معاملہ فی الحال ٹل گیا ہے۔ حکومت انتخابی اصلاحات کے بارے میں بل لانے کی تیاریاں کر رہی ہے اور اسے امید ہے کہ پیپلز پارٹی اس حوالے سے اسکا ساتھ دے گی۔ پیپلز پارٹی ، جو سندھ میں حکمران ہے اور قبل از انتخابات نہیں چاہتی ، کی سوچ واضح ہے کہ اصلاحات نہ کہ قبل ازوقت انتخابات ملک کے فائدے میں ہیں تو حکومت کے پاس اسے دینے کے لیے وہ سب کچھ موجود ہے جو نو اپوزیشن پارٹیوں کے پاس موجود نہیں۔ اگر حکمران پارٹی وضع داری کا راستہ اپنائے تو اس تعاون کی راہ نکل سکتی ہے جو حکمران پارٹی کی عوام میں گرتی ساکھ کو بھی بچائے اور ملک کا بھی فائدہ ہو۔