پچھلے ماہ جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے مشیروں کے ساتھ کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کیلئے لاک ڈاون کرنے پر غور کررہے تھے ،انھیں بتایا گیا کہ وبائی امراض سے نپٹنے سے متعلق قوانین میں اسطرح کے کسی اقدام کی گنجائش نہیں ہے۔ یہی صورت حال پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان اور بنگلہ دیش حکومت کو بھی درپیش تھی۔ جنوبی ایشیا کے یہ تینوں ممالک ابھی بھی برطانوی دور اقتدار میں بنے 1897ء کے قانون Epidimic Diseases Act پر عمل پیرا ہیں۔ پچھلے135برسوں میں وقتاً فوقتاً وبائی امراض کے پھوٹنے کے باوجود، حکومتوں نے اس قانون کو ازسر نو ترتیب دینا گوارا نہیں کیا ۔ ان ملکوں کی افسر شاہی تو کسی بھی پیچیدہ مسئلے کا حل نکالنے میں خاصی دور کی کوڑی لانے میں ماہر ہے۔ جب معلوم ہوا کہ 1897ء کا مختصر سا یک صفحی قانون لاک ڈاون اور نہ ایر پورٹ پر اسکریننگ کی اجازت دیتا ہے ، تو افسران نے حل یہ نکالا کہ وبائی مرض کو قدرتی آفت ڈیکلیر کرکے آفات سے نمٹنے سے متعلق قانون Disaster Management Actکو روبہ عمل لایا جائے۔ جس کے تحت مرکزی حکومت کو وسیع تر اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور وہ صوبائی حکومتوں کو احکامات جاری کرسکتی ہے۔ چونکہ آئین کی رو سے صحت عامہ کا شعبہ صوبائی حکومتوں کے زیر اختیار ہوتا ہے ، اسلئے مرکزی حکومت بس ایڈوائزری ہی جار ی کرسکتی تھی۔ ایک گزٹ نوٹیفیکیشن کے ذریعے کورونا وائرس کو قدرتی آفت نوٹیفائی کیا گیا۔ اب مشکل یہ درپیش تھی کہ Disaster Management Actکے تحت آفات سے نمٹنے کا کام تو وزارت داخلہ کرتی ہے جبکہ وبائی امراض وزارت صحت کے تحت آتے ہیں۔ اس صورت حال میںدیگر ممالک میں بھی طبی شعب وزارت صحت کے ہی رابطہ میں رہتے ہیں۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ داخلہ سیکرٹری اجے کمار بھلہ نے باضابطہ ایک حکم نامہ جاری کرکے آفا ت سے نمٹنے سے متعلق اپنے تمام اختیارات سیکرٹری صحت پریتی سودن کو منتقل کردئے۔ یاد رہے کہ 2004 ء میں سونامی طوفان اور سال بھر بعد کشمیر میں آئے شدید زلزلہ کی وجہ سے بھارت او رپاکستان کی حکومتوں نے آفات سے نمٹنے کیلئے Disaster Management Actتشکیل دیا تھا اور نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی بناکر آفات سے نمٹنے کیلئے ایک طریقہ کار وضح کر دیا تھا۔ 2014 ء میں جب مودی برسراقتدار آئے تو انہوں نے کتاب دستور میں موجود فرسودہ قوانین کی شناخت اور ان کو کا لعدم یاترمیم کرنے کی سفارش کرنے کی غرض سے دو سینئر افسران آر ۔ رام مانوجم اور وی کے بھسین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ تقریباً آٹھ ماہ کی عرق ریزی کے بعد ان افسران نے ایک مدلل رپورٹ پیش کی۔ جس میں بتایا گیا کہ کتاب دستور میں موجود 2781مرکزی قوانین یا ایکٹ ہیں، جن میں 380ایکٹ ایسے موجود ہیں ، جو 1834ء اور 1949 ء کے درمیان وجود میں آئے ہیں۔ ان افسران نے بتایا کہ 1741قوانین موجودہ دور میں افادیت کھو چکے ہیں۔ ان میں ایک قانون سرائے ایکٹ ہے، جس کی رو سے کسی بھی سرائے کے مالک موجودہ دور میں ہوٹل یا ریسٹورنٹ پر لاز م ہے کہ مہمان یا گاہک کو پینے کیلئے مفت پانی فراہم کرے ،نیز گھوڑوں و جانوروں کی دیکھ بھال کیلئے اصطبل کا ہونا لازمی ہے۔ خلاف ورزی کرنے پر قانونی چارہ جوئی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح کے کئی فرسودہ قوانین بھارت اور پاکستان کی کتاب دستور میں ابھی بھی موجود ہیں۔ کمیٹی نے وبائی امراض سے متعلق ایکٹ کا بھی جائزہ لیکر سفارش کی کہ اس کو فی الفور کا لعدم کرکے ایک نیا قانون وضح کیا جائے۔ یہ قانون وبا کی صورت میں سمندری جہازو ں کی تلاشی اور ان میں آنے یا جانے والے مسافروں کی جانچ کی اجازت تو دیتا ہے، مگر اس میں ہوائی جہاز یا اس میں سفر کرنیوالے مسافروں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ کیونکہ 1897ء میں ہوائی سفر کی سہولیات میسر نہیں تھیں۔ خلاف ورزی کرنیوالوں کیلئے چھ ماہ کی قید اور ایک ہزار روپے کا جرمانہ کا ذکرکیا گیا ہے۔ایک صدی قبل یہ خاصی بڑی رقم ہوتی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ 1896 ء میں ممبئی میں طاعون کی وبا پھیل گئی تھی۔جس کی وجہ سے حکومتی عملے کو قانونی طور پر بااختیار بنانے کیلئے اس ایکٹ کو جلد بازی میں تشکیل دیا گیا تھا۔ اب وہ کسی بھی گھر میں داخل ہوکر افراد خانہ کو ہسپتال جانے پر مجبور کرسکتے تھے اور کسی بھی شخص کو روک کر اس کا طبی معائنہ کرسکتے تھے۔ 1891ء میں گو کہ یورپ میں ہسپانوی فلوپھوٹ پڑا، مگر جلد ہی اس نے ہندوستان میں قہر ڈھا دیا۔ نقل و حمل کے ذرائع محدود ہونے کے باوجود متحدہ ہندوستان میں اسوقت 20ملین افراد اس کی نذر ہوگئے۔ 2014 ء میں افسران کی سفارش کے بعد تین سال کی عرق ریزی کے بعد وزارت صحت نے وبائی امراض و حیاتیاتی ہتھیاروں سے نپٹنے کی غرض سے قانون کا ایک ڈرافٹ تیا رکیا اور اس پر تبصرے اور امور صحت سے متعلق ماہرین کی رائے طلب کرنے کیلئے اسکو ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا۔ مگر جہاں حکومت کی ترجیحات میں دفعہ 370ختم کرنا، مسلم خواتین کے طلاق کا قانون پاس کروانے اور دیگر ایسے قوانین پاس کروانے کیلئے عجلت دکھانا ہو، تو عام آدمی کیلئے قانون سازی کیلئے وقت کہاں سے آئیگا۔ تین برسوں میں وزارت صحت نے وبائی امراض سے متعلق قانون کو حتمی شکل دینے کیلئے صلاح مشورہ کو بھی ضروری نہیں سمجھا۔ اسکو پارلیمنٹ میں لانے کی بھی کسی کو توفیق نہیں ہوئی، جہاںاسکو اسٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کرکے اس پر غور و خوض کیا جاسکتا تھا۔ جہاں حکومت کی تمام تر توجہ اقلیتی طبقہ کو زچ کرنا ، اکثریتی فرقہ کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے نیشنلزم کا راگ الا پ کر ووٹ بٹورناہو، تو صحت سے متعلق قانون سازی کی کس کو فکر ہوتی۔ اس ڈرافٹ میں بھی کئی خامیا ں ہیں۔ لاک ڈاون اور دیگر اقدامات کی صورت میں متاثر ہوئی آبادی کی معاشی بحالی اوران کیلئے غذا وغیرہ کی فراہمی کاکوئی ذکر نہیں ہے۔ کورونا وائرس نے فی الحال یہ تو ثابت کردیا کہ وبائی امراض کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات سے ایک بڑی آبادی معاشی بد حالی کا شکار ہوسکتی ہے۔ آفات سے نمٹنے کیلئے جس طرح دیگر ممالک کے ساتھ اشتراک کیلئے ایک میکنزم موجود ہے، وبائی امراض سرحدیں نہیں مانتی ہیں کیلئے اس طرح کا کوئی نظم نہیں ہے، جبکہ پچھلی دو دہائیوں میں دنیا میں فلو، سارس، نیپا جیسی بیماریوں نے قہر ڈھایا ہے۔ بھارت اور پاکستان کیلئے لازم ہے کہ صحت کو ترجیع دیکر ایک جامع قانون پارلیمنٹ میں لائیں۔ بھارت میں صحت کا بجٹ مجموعی قومی پیداوار کا محض 1.6فیصد ہے، جبکہ 2017ء میں جاری ہیلتھ پالیسی میں حکومت کیلئے لازم کیا گیا تھا کہ اسکو 2.5صد تک لے جائے۔ پاکستان میں تو یہ اور بھی کم یعنی مجوعی قومی پیداوار کا 0.91فیصد ہے۔جبکہ ترکی میں جی ڈی پی یعنی قومی مجموعی پیداوار کا 4.4 فیصد صحت پر خرچ کیا جاتا ہے۔ کورونا وائرس نے یہ تو دکھایا ہے کہ جنگوں کی طرح وبائی امراض بھی معشیت کو تہہ و بالا کرسکتے ہیں۔ اس وائرس سے عالمی منڈیوں میں ایک اندازہ کے مطابق 18ٹریلین ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔ جنگوں اور قومی سلامتی کے ایشوز سے نمٹنے اور تیاری کیلئے حساس ادارے اور فوج متواتر مشقیں کرتے رہتے ہیں۔ ہر ملک کے پاس تیل کے اسٹریٹیجک ذخائر موجود ہوتے ہیں ، اس کے علاوہ ایمونیشن کے بھی ذخیرہ بنائے جاتے ہیں۔ صحت کے ایشوز سے نمٹنے کیلئے بھی اسی طرح چوکسی کی ضرورت ہے۔کیونکہ اس وبا نے یہ تو عیاں کردیا ہے کہ بڑی طاقتیں بھی صحت سے متعلق آلات و دوائیوں کا وافر اسٹاک نہیں رکھتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ صحت سے متعلق امور کو بھی قومی و انسانی سلامتی کے نظریہ سے دیکھا جائے۔