صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون بھی کہا جاتا ہے۔ البتہ کسی بات کو کہنے اور اسے ماننے میں بڑا فرق ہے۔ چند روز سے پاکستان میں ریاست اور صحافت کی آویزش کچھ گرم سی ہے۔ ایک صحافی پر حملہ کے ردِعمل میں ایک سینئر صحافی کے کہے گئے جملوں نے سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی میں طوفان برپا کر رکھا ہے۔ دوسری جانب ایک بین الاقوامی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ہمارے وزیر اطلاعات کایہ بیان، کہ ہمارے ملک کا میڈیا بالکل آزاد ہے نے ملک کے کئی طبقات کو حیران کر دیا ہے۔تھڑوں پہ بیٹھ کر گپیں ہانکنے والوں کو بحث کے لیے نیاموضوع مل گیا ہے۔ ٹاک شوز بھی اسی موضوع کو لیے سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔البتہ صحافت اور صحافت سے جڑے لوگوں پر قدغن یاان کے قلم کی فروخت کا الزام کوئی نئی بات نہیں۔ یہ کافی پرانی رسم ہے۔کئی ریاستوں میں ا س کی موجودگی آج بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ ہندوستان کی آزادی کے لیے سرگرداں رہنے والے کئی نام ایسے ہیں ، جومیدانِ صحافت میں صفِ اول کے شہ سوار تھے۔ بڑے نام جن میں ایک نام بی جی حارنیمین کا بھی ہے۔ یوں تو یہ ایک انگریز تھا، البتہ برٹش راج سے ہندوستان کی آزادی کا قائل تھا۔ ۹۱۹۱ء میں انگریز نے عام رعایا پر سختیاں ظلم اور بربریت کی حد تک بڑھا دیں۔ صحافیوں نے حکومت کے خلاف خوب لکھا، اور اخبارات نے خوب چھاپا۔ انہیں میں ایک ’’بمبئی کرانکل‘‘ نامی اخبار بھی تھا جس کے ایڈیٹر حارنیمین تھے۔ حکومت مخالف بیانئے پر، حکومت سرگرم ہوئی اور سینسرشپ کے ہتھیار کو استعمال میں لاتے ہوئے اس اخبار پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ حارنیمین کو ہندوستان سے ملک بدر کرکے ،انگلستان بھجوا دیا ،او ران پر سفری پابندیاں نافذ کردیں۔ کچھ عرصہ بعد پابندیاں تو ہٹا دی گئین، البتہ حارنیمین کو ہندوستان آنے کی اجازت نہ دی گئی۔ ۳۲۹۱ء کو یہ مسئلہ ہندوستان کی قانون ساز کونسل میں لایا گیا ۔ اس قرارداد کو جے پٹیل نے پیش کیا۔ اس قرار داد کا ماخذ یہ تھا کہ حارنیمین کو ہندوستان آنے کی اجازت دی جائے۔ اس قرار داد کے حق میں قائدِاعظم محمد علی جناح نے مختصر مگرجامع تقریر کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قائدِاعظم اس اخبار کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے رکن بھی تھے۔ اس بات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قائدِاعظم کے لیے صحافت ایک باعزت اور باوقار شعبہ تھا۔ حارنیمین پر دو الزامات تھے۔ ایک تو یہ کہ اخبار نے جھوٹی رپورٹ شائع کی ۔ دوسرا یہ کہ اس اخبار کی کاپیوں کو جان بوجھ کر فوجی اہلکاروں میں بانٹا گیا۔ ان دونوں الزامات کو رد کرتے ہوئے قائد نے دلیل دی کہ اوّل تو جس رپورٹ کی بنیاد پر اخبار کو بند کیا گیا ، رپورٹر نے اس خبر کے چھپنے کے اگلے ہی دن اس خبر کی تردید میںٹیلی گرام بھیجا،جسے اسی طرح اگلے دن کے اخبار میں شائع کردیا گیا۔دوسرا یہ کہ حکومت کے حرکت میں آنے سے پہلے ہی وہ ٹیلی گرام اخبار میں چھپ چکا تھا۔جس کے پیشِ نظر حکومت کے پاس یہ الزام لگانے کا کوئی جواز موجود نہیں۔ دوسرے الزام پر قائد کا یہ کہنا تھا کہ اب تک حکومت ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی جو یہ ثابت کر سکے کہ اس دن کا اخبار واقعی سپاہیوں میں پڑھنے کے لیے مفت بانٹا گیا تھا۔ گویا دونوں ہی الزامات بے بنیاد تھے۔ قائد کی تقریر کا آخری حصہ سب سے اہم اور دلچسپ تھا ۔ وہ کہتے ہیں: ـ’’جناب، میں ان میں سے نہیں جو لوگوں کو جرم کرنے کی ترغیب دیں، یا جرائم کے بدلے ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ البتہ ایک بات میں واضح کردینا چاہتا ہوں، کہ میں آئین و قانون سے بھرپور شناسائی رکھتا ہوں،اور میں یہ جانتا ہوں کہ آئین و قانون کا سب سے خوبصورت جزو، فرد کی آزادی ہے، جسے کسی صورت بھی یوں سلب نہیں کیا جاناچاہئے۔ اگر حارنیمین پر یہ الزامات ہیں،تو انہیں ٹربیونل کے سامنے پیش کیا جائے۔اگر الزامات ثابت ہوجائیں تو میں ایک لفظ نہیں کہوں گا، کہ ٹھیک ہے وہ اپنی کیے کی سزا بھگتیں۔ لیکن جنابِ والی، چار سال گزرنے کے بعد بھی،اگر حکومت انہیں اپنے لیے خطرناک سمجھتی ہے،اور اسی وجہ سے حکومت انہیں انکے پاسپورٹ تک رسائی پانے نہیں دے رہی،تو مجھے یہ کہنے دیجئے کہ حکومت کایوں پابندی عائد کئے رکھنا ایک ذلت آمیز حرکت ہے ۔کیا ایسی حرکت کسی بھی حکومت کے وقار سے مطابقت رکھتی ہے؟ کیا یہی وہ طرزِ عمل ہے جو ایک حکومت کااپنی رعایا کی آزادی کے ساتھ ہوتا ہے ـ۔؟‘‘ اگرچہ ریاست کے ستون ، کتابوں میں لکھے اور کسی نصاب میں پڑھائے بھی جاتے ہوں گے ، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا ہوگا کہ اگر ریاست کے یہی بنیادی ستون جن پر ریاست قائم ہوتی ہے کھوکھلے ہونا شروع ہوجائیں، تو ’’ڈیپ سٹیٹ‘‘ اور ’’بنانا ریپبلک‘‘ جیسی اصطلاحات توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔ پھر شاہ سوارِآئندہ گاں قائدِاعظم کے کہے گئے الفاظ کو پڑھتے ہیں ، اور اندر ہی اندر ، اپنی ہی ذات میں نوحہ کناں ہوتے ہیں، : وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں!