اپنے مطلب کے سوا لوگ کہاں ملتے ہیں اب کے بھی سانپ خزانے کے لئے آئے تھے وائے ان لوگوں نے جنگل بھی جلا ڈالا ہے جو یہاں شہر بسانے کے لئے آئے تھے کیا کیا جائے کہ انسان ہمیشہ اس المیے سے دوچار رہا۔اس پر بات کرنے سے پہلے ایک دلچسپ خبر پر بات ہو جائے کہ عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے کہ انفارمیشن اکیڈمی صحافیوں کی تربیت کے لئے پروگرام ترتیب دے۔ مگر اس سے بھی پہلے میں آپ کے ساتھ اس سے بھی زیادہ دلگداز اور پیارا سا واقعہ شیئر کروں گا۔ ٹی وی کے دنوں میں جب گیت وغیرہ لکھنے میں مصروف تھے معروف گلو کارہ شمسہ کنول کہنے لگی کہ وہ اپنی شاعری کی اصلاح چاہتی ہیں۔ میں نے فوراً کہا ’’نہیں محترمہ‘‘ کہنے لگیں’’کیوں‘‘ میں نے کہا ’’اس کے بعد میں خود ناقابل اصلاح ہو جائوں گا‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بات ختم شد۔ مندرجہ بالا خبر کی بڑی سرخی تو یہ تھی کہ شبلی فراز نے کہا ہے کہ ’’وزارت اطلاعات کے کردار کو مزید فعال کیا جائے گا‘‘ ہمارے لئے مگر ضمنی سرخی ہی اصل بات تھی کہ جس میں صحافیوں کے تربیت کا اہتمام کرنے کی بات ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صحافیوں کو تربیت کی ضرورت ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس بیان میں صحافیوں سے مراد کیا ہے:اور تیسری بات یہ کہ صحافی کی تعریف کیا ہے۔ ویسے جن کو مخاطب کر کے یا جن کے بارے میں یہ ارشاد ہوا ہے وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ مگر وہ اس مرتبہ بولیں گے نہیں کہ ان کی توہین کر دی گئی ہے کہ انہوں نے ساری زندگی اس شعبے میں گزار دی اور وہ تو اب حرف آخر سمجھے جاتے ہیں۔کیا کوئی مچھلیوں کو تیرنا سکھائے گا۔ ہو سکتا ہے وہ یہ بھی سوچتے ہوں کہ ابھی ابھی تو انہوں نے اپنا لوہا منوایا تھا کہ ایک مقبول ترین مذہبی ٹائی کون سے معافی منگوا دی۔ بہرحال وہ عاصم باجوہ کے بیان پر تلملا رہے ہونگے۔لو جی تلملانے سے مجھے کیا فضول شعر یاد آیا: میرے ہونٹوں پہ ہے اور ان کے ہے رخسار پہ تل تلملانے کی اجازت نہیں دی جائے گی ویسے عاصم صاحب کی بات ہمیں بھی نہیں بھائی، کہ بھائی جان تربیت اور اصلاح وغیرہ کی ایک عمر ہوتی ہے۔آپ بوڑھے طوطوں کو کیا پڑھائیں گے۔ یہ الگ بات کہ ان میں کچھ طوطے بوڑھے نہیں مگر طوطے تو ہیں طوطا تو اسی کی بات کرے گا جس کی چوری کھائے گا‘ اسی کی فال نکالے گا جس کی انگلی پر بیٹھا ہے اور اس کی توپ چلائے گا جس نے اسے سدھایا ہے۔ میرا خیال ہے وہ اس خیال خام کو رہنے ہی دیں اب بتائیے میں کیا کروں کہ خام خیالی سے مجھے اپنے عہد کے معروف شاعر ڈاکٹر خورشید رضوی کا شعر تنگ کرنے لگا: یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے کیا واقعتاً ایسا نہیں ہوا کہ جب سے چینلز کی بھر مار ہوئی اور ٹاک شوز شروع ہوئے ایک افراتفری اور شور سا مچ گیا۔ جس کا جہاں دائو لگا وہ آن بیٹھا۔ سچ مچ یہ سارا معاملہ تعلقات یا رسائی کا تھا اور پھر جو زیادہ بدتمیز نکلا اتنا ہی کامیاب ۔ شاید لوگ بھی ایسے ہی لوگوں کو پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ سوچ کر تکلیف بھی ہوتی ہے اور شرم بھی آتی ہے۔ ان کے پاس نہ زبان کی صحت اور نہ بات میں اخلاقیات مگر بہم دست و گریبان تک پہنچ جاتے ہیں اور ایسی صورت میں سارا دن وہی سین لوگوں کو دکھائے جاتے ہیں۔ ہم نے ریڈیو اور ٹی وی پر کام کیا۔ خاص طور پر ریڈیو میں تلفظ تک درست کروایا جاتا۔ باقاعدہ ایک تربیت کا نظام تھا۔ یہاں تک بتایا جاتا کہ ایک ایسے لہجے میں بولیں کہ سننے والا آپ کو ٹی وی پر دیکھ رہا ہے۔ یعنی آواز سے تصویر بنا دیں۔ اسی طرح ٹی وی پر بھی جید پروڈیوسر تھے اور پروڈیوسرز کی باقاعدہ تربیت ہوتی تھی اور اس سے پہلے اس کا تعلیم یافتہ ہونا بنیاد تھا۔ اب تو بس آپ چینل کھولیں یا آپ کا کوئی چینل کھول لے بس پانچوں گھی میں اور پھر جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ تاہم مطلوبہ تربیت سے یہ بھی مراد نہیں کہ را طوطوں کو حکومتی طوطے بنا دیا جائے۔ یا تربیت سے مراد یہ کہ انہیں جی حضوری سکھائی جائے ان کا ڈنک نکال دیا جائے یا پھر ان کے پر کاٹ دیے جائیں۔ اختلاف سب کا حق ہے اور حق بات کہنا ان کا منصب اور ذمہ داری۔ مگر کوئی صحافی ملک سے غداری کرے غداروں سے جا کر میڈل وصول کرے یا وہ اپنے ملک کے خلاف دشمن ملک کو شہادتیں منہا کرے یا پھر ایسے چینل پر کام کرے جس کے ڈانڈے کہیں دشمنوں کے کرتا دھرتا سے ملے ہوں تو پھر اس کی تربیت کی ہی نہیں سرزنش کی بھی ضرورت ہے۔ ایسے لوگوں کا محاسبہ ازبس ضروری ہے۔ ایسے منافقوں کو بے نقاب کرنا چاہیے۔ ایسے لوگوں کا کیوں معلوم نہ کیا جائے جو باقاعدہ ٹائی کونز سے منتھلی لیتے ہیں ‘ پلاٹ لے چکے ہیں اور ان کے ساتھ بیٹھ کر منصوبے کے تحت ان کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور ان کے امیج میکنگ کرتے ہیں۔ بات تلخ ہو گئی ہے تو کیا کروں‘ درد اس دل میں سوا ہوتا ہے۔ چلیے ہلکے پھلکے انداز میں یوں کہہ لیں کہ ان بے ترتیب لوگوں کو ڈسپلن میں لایا جائے۔ رومانٹک انداز میں کہہ لیں: کسی ضابطے میں تو زلفوں کو لائو نہ الجھا رہے ہو‘ نہ سلجھا رہے ہو اب ان باتوں کو چھوڑ کر ایک نہایت سنجیدہ خبر پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ اس خبر نے تو دل کاٹ کر رکھ دیا یوں کہیں کہ جگر چھلنی کر دیا۔میں اتمام حجت کے طور پر یا اپنا فرض سمجھ کر اس کا ذکر کر رہا ہوں کہ شاید یہ کالم کسی درد دل رکھنے والے چھوٹے موٹے حاکم کی نظر سے گزر جائے اور وہ ایک بے چارے استاد کو اس کا حق دلوا دے۔ خبر یہ تھی کہ ایک بدبخت بیٹے نے تشدد کر کے اپنے بوڑھے والدین کو گھر سے نکال دیا۔ خبر کے ساتھ اس لعنتی کی تصویر بھی چھپی ہوئی ہے۔ مجھے تو یہ خبر پڑھ کر وحشت سی ہونے لگی اور غصے سے میرا برا حال ہو گیا کہ والدین کوتو اس عمر میں بچوں کی طرف سے ٹھنڈی ہوا کی آس ہوتی ہے۔ ہمیں یہ حکم ہے کہ ان کو اف تک نہ کہو اور ان کے بوڑھا ہونے پر اگر کوئی شخص ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کر سکے تو اس پر لعنت ہے۔ یہ میرے آقا حضرت محمد ؐ کی حدیث کا مفہوم ہے۔ چہ جائے کہ اپنے والدین کو مار کر گھر سے نکالا جائے۔ دوسری تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ملزم احسان نے کیسی احسان فراموشی کی کہ اپنے والد کو جو کہ استاد ریٹائر ہوئے‘ مارا اور یہ مکان اس کے والد نے اپنے ریٹائرمنٹ کے پیسوں سے بنوایا۔ بیٹا قبضہ کر کے بیٹھ گیا‘ سب کو گھر سے نکال دیا اور ساتھ ہی پولیس کی مٹھی گرم کر دی۔خبر کے مطابق یہ واقعہ گوجرانوالہ کی تحصیل کامونکی کے گائوں دھرنگ کا ہے۔ میاں بیوی نعمت مسیح اور صفیہ بی بی ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم سے اپیل کی ہے حالانکہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے کرنی چاہیے تھی۔ بہرحال میں نے تو فرض سمجھ کر لکھا ہے اس کے باوجود کہ جانتا ہوں کہ پولیس ساتھ مل جائے تو کام مشکل ہو جاتا ہے۔