یہ ہماری خوش قسمتی ہے اور کچھ بروقت احتیاطی اقدامات کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں کرونا کی وبا اتنی تیزی سے نہیں پھیلی جس برق رفتاری سے اس نے چین‘ یورپ اور امریکہ کے ترقی یافتہ ‘ امیر ممالک میں اپنے پنجے گاڑے یا ایران اور ترکی کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ لیکن جب تک خطرہ اچھی طرح ٹل نہ جائے ہمیں احتیاطی اقدامات سے غافل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ پاکستان میں نصف آبادی غریب اور ایک چوتھائی آبادی سفید پوش ہے ۔یہ لوگ بیمار ہونے کی صورت میں علاج معالجے کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے۔ عام آدمی تو خون کا معمولی سا بنیادی ٹیسٹ کرانے کی سکت نہیں رکھتا ‘ کرونا کا بہت مہنگاتشخیصی ٹیسٹ کیسے کرائے گا؟ جبکہ صحت کا سرکاری نظام وسائل سے محروم‘ بدانتظامی اور کرپشن کاشکار ہے ۔ وہ لوگوں کو علاج کی مناسب سہولتیں مہیّا نہیں کرسکتا۔ کرونا سے پھیلنے والی بیماری ایک نئی طرح کا زُکام ہے جوبہت تیزی سے ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگتا ہے اور نمونیے کے مرض میں تبدیل ہوجاتا ہے۔جن لوگوں کی قوت مدافعت مضبوط ہے ان کا جسم اس وائرس پر خود قابو پالیتا ہے لیکن جو کمزور ہیں یا پہلے سے کسی بیماری میں مبتلا ہیں انکو صحت یاب ہونے میں مشکل پیش آتی ہے۔ اگر یہ وائرس پھیپڑوں میں داخل ہوجائے تو مریض کو وینٹی لیٹر کے ذریعے مصنوعی طور پر آکسیجن دینا پڑتی ہے۔ ہمارے ملک میں صرف دو ہزار وینٹی لیٹر ہیں لیکن ان کی بڑی تعداد خراب پڑی ہے جسے اب ٹھیک کیا جارہا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اگرکرونا کی وبا پاکستان میںپوری طرح پھیل گئی تو اٹھارہ لاکھ افراد متاثر ہوسکتے ہیں۔ پاکستان حکومت اتنی بڑی تعداد میں وینٹی لیٹر کا انتظام کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ہمارا حال تو اتنا پتلا ہے کہ ملک میں ماسک کی قلت ہے‘ وہ بلیک میںدس بیس گنا زیادہ قیمت پر فروخت ہورہے ہیں‘ مدافعت پیدا کرنے کے لیے درکار وٹامن سی بازار سے غائب ہوچکی ہے‘ ہاتھ صاف رکھنے والے سینی ٹائزر بہت مہنگے ہیں جو عام آدمی کی قوت خرید میں نہیں۔ حکومت کم سے کم یہ کام تو کرسکتی ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعے یہ بنیادی حفاظتی چیزیں مناسب دام پر مہیا کردے۔ پاکستان میں صحت کا سرکاری نظام اتنا کمزور اور بدحال ہے کہ وہ روٹین کی بیماریوں کا بوجھ نہیںاُٹھا سکتا ‘ ٹائیفائڈ اور نمونیا کی پرانی وباؤں کو کنٹرول نہیں کرسکا تو کرونا ایسی بڑی وبا سے نپٹنا تو محال ہے۔ گزشتہ 71برسوں میں ہر حکومت نے صحت کے شعبہ کو بہت نظر انداز کیا۔ ریاست نے عام آدمی کو نجی شعبہ کے ڈاکٹروں ‘ لیبارٹریوں‘ ہسپتالوں کے سپرد کردیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو عوام سے ایک سال میں ٹیکسوں اور دیگر فیسوں کی مد میںمجموعی طور پر جو آمدن ہوتی ہے وہ اسکا بمشکل پانچ فیصد صحت کے شعبہ پر خرچ کرتی ہیں۔ پاکستان کی اکیس کروڑ آبادی کے لیے صرف بارہ سو بڑے ‘ چھوٹے سرکاری ہسپتال اور کلینک ہیں ۔ ان میں سے بیشتردیہات میں واقع بنیادی صحت مراکز اور دیہی مراکز صحت ہیں جہاں ڈاکٹر روزانہ جانا ہی پسند نہیں کرتے‘ ان مراکز میں نہ تشخیصی ٹیسٹ کرنے کی سہولت ہے نہ ایکسرے اور الٹرا ساونڈ کی اسکریننگ مشینیں‘ نہ زچہ بچہ کے لیے مناسب سہولتیں۔ جو طبی آلات اور سامان ہے وہ اکثر خراب رہتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں نوزائیدہ بچوں کے مرنے کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے یعنی ایک ہزار میں سے پچپن بچے پیدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں۔پوری دنیا میں وبائی امراض جیسے خناق‘ کالی کھانسی‘ اسہال‘ نمونیا پر قابو پانے کی غرض سے دو سال کی عمر تک کے چھوٹے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں چالیس فیصد بچے حفاظتی ٹیکوں سے محروم رہتے ہیں۔ بلوچستان صوبہ کا حال تو بہت ہی خراب ہے۔ وہاں اسیّ فیصد سے زیادہ بچوں کو حفاظتی ٹیکے نہیں لگائے جاتے۔ صحت عامہ کے ناقص نظام کے باعث پاکستان ان چند ملکوں میں سے ایک ہے جہاں پولیو وائرس ختم نہیں ہوسکا۔ گزشتہ سال ملک میں پولیو وائرس کے 146 مریض رپورٹ ہوئے۔ ہمارے ہاںہر سال ڈیڑھ کروڑ افرادہیپاٹائٹس وائرس کے انفیکشن سے یرقان میں مبتلا ہوتے ہیں اور تقریباً چوبیس ہزار لوگ اسکاشکار ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ خاصی مدت سے ہر سال پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ ٹی بی کے موذی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں اور چھپن ہزاربیماری کے باعث جاں بحق ۔ ملک میں ایڈز تیزی سے پھیل رہی ہے حالانکہ باقی دنیا میں یہ مرض کم ہورہا ہے۔ دس سال پہلے ملک میں ایڈز کے صرف سوا چار ہزار مریض تھے۔ آج رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد تقریباً سینتیس ہزار ہے۔ پنجاب میں ایڈز کنٹرول کا سرکاری پروگرام بدانتظامی کی وجہ سے تباہ ہوچکا ہے۔مزید‘ پچھلے سال پچیس ہزار لوگ ڈینگی وائرس کے مرض میں مبتلا ہوئے‘ زیادہ مریض کراچی میں تھے جہاں سڑکوں‘ گلیوں میں گندگی‘ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے رہتے ہیں۔ اگرریاست ان وباؤں کی روک تھام کے مؤثر اقدامات کرتی‘ زیادہ فنڈز مختص کرتی ‘سرکاری محکموں کی بدانتظامی اور کرپشن پر قابو پاتی توپاکستان میں ان امراض کے شکار افراد کی تعداد اتنی زیادہ نہ ہوتی۔ جب ڈینگی یا کرونا ایسی کوئی وبا شروع ہوتی ہے تو حکمران اسکے تدارک کے لیے عارضی اقدامات کرتے ہیں لیکن ملک کے صحت عامہ اورعلاج معالجہ کے نظام کو مستقل بنیادوں پر بہتر نہیں بناتے۔ پینے کا صاف پانی اوررہائشی و صنعتی آبادیوں میں گندے پانی کے نکاس کا نظام بیماریوں کو روکنے ‘عوام کو صحت مند رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے حکمران آج تک قوم کی اکثریت کو یہ دو بنیادی سہولتیںفراہم نہیں کرسکے ‘ اُن سے کسی اور بھلائی کی کیا توقع کریں؟ آزمائش کے ان دنوں میں بہتر یہی ہے کہ لوگ اس سنہری مقولہ پر عمل کریں کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے ۔