تیرا پاکستان ہے نہ میرا پاکستان ہے اْس کا پاکستان ہے جو صدرِپاکستان ہے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور میں کسی مبتدی شاعر نے یہ پھبتی شعر کی شکل میں کسی تھی جسے۔۔۔ شاعرِعوام حبیب جالب سے منصوب کرکے عام طورپر پڑھا جاتا تھا کہ اس قسم کی جرأت کا مظاہرہ کوئی دوسرا شاعر کر نہیں سکتا تھا۔۔۔ جالب صاحب یہ شعر سن کر بڑا کْڑھتے تھے کہ بہر حال اْن کی سیاسی نظموں میں زبان و بیان کا بڑاخیال رکھا جاتاتھا۔ ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا یاپھر بیس گھرانے ہیں آباد اور پانچ کروڑ ہیں ناشاد صدر ایوب زندہ باد یہ ساری تمہید اس لئے باندھی کہ ہمارے شہر کراچی کے ایک نسبتاً درمیانہ طبقے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عارف علوی نے کراچی سے ہی تعلق رکھنے والے محترم ممنون حسین کی جگہ صدارت کا عہدۂ جلیلہ سنبھالا ہے۔ وطن عزیز میں گذشتہ ساٹھ سال میں دو ہی طرح کے صدر ہوتے ہیں۔ طاقتور فوجی جنرل اور صدر فیلڈ مارشل محمدایوب خان، صدرجنرل محمدضیاء الحق اور صدر جنرل پرویز مشرف ہمارے یہ تینوں جرنیلوں نے اپنی وردی کے سبب دس، دس سال صدرِ مملکت کی حیثیت سے بھی حکومت کی۔ اس کے مقابلے میں 1973 کے آئین کے تحت یہ عہدہ "مسکینیت اور مظلومیت" کی علامت بن گیا۔ پاکستانی سیاست کے سب سے ذہین و فطین سیاستدان، پی پی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں گجرات سے تعلق رکھنے والے فضل الٰہی چوہدری صدر ہوا کرتے تھے۔ سال میں ایک یا دو بار انہیں اس عہدے کے شایان شان عزت و تکریم ملتی تھی۔ جب انہیں افواج ِپاکستان کے سربراہان 14اگست یا23مارچ کو روایتی سلامی دیاکرتے تھے۔۔۔ بھٹو صاحب کے آخری دور میں افواہوں کی صورت میں جب پھلجڑیاں چھڑنا شروع ہوئیں تو سینہ بہ سینہ طے ہوتے ہوئے یہ لطیفہ زبانِ خلق پہ آیا کہ کسی منچلے نے ایوانِ صدر پر یہ نعرہ لکھ دیا کہ: "فضل الہی چوہدری کورہا کرو" ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ لکھنے والا کوئی اور نہیں خود صدر فضل الٰہی چوہدری تھے۔ حکومت گرنے لگے تو ایسی دورفنطنیاں خبربنتی ہیں۔ صدر ضیاء الحق اور ان کی جگہ لینے والے صدر غلام اسحاق مطلق العنان صدر ِمملکت تھے۔۔۔ کہ انکے ہاتھ میں 58 ( ٹو بی) کی آئینی شق بھی تھی۔ اس آئینی شق کا شکار سانگھڑ سے تعلق رکھنے والے غریب محمد خان جونیجو بھی ہوئے۔۔۔ اور اپنے اپنے وقت کے پاپولرعوامی رہنما محترم میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو بھی۔ اقتدار سے باہرہونے کے بعد جب دونوں وزرائے اعظم لندن کے خنک و خوشگوار موسم میں ملے تو دونوں میں اتفاق بلکہ میثاق ہوا کہ سب سے پہلے آئین کی ظالم شق 58ٹو بی کونکال باہر کرنا ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ58ٹو بی کے اختیارات سے محروم اْن کااپنا وڈا صدر بھی اْس چھڑی کے سامنے بے بس تھا جوبدقسمتی سے وطنِ عزیز میں اقتدار کا سرچشمہ ہے۔صدر رفیق تارڑ محترم میاں نواز شریف کے ذاتی ملازم رہے تھے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ محترم میاں صاحب کی رخصتی کے بعد انہیں بھی لاہور میں اپنے گھر منتقل ہوجانا تھا۔ مگر صدر کا عہدہ اور وہ بھی ایوان صدر کے ساتھ جسکا ماہانہ خرچہ 7 کروڑ سے اوپر بنتا ہے۔ یہ صدر کے پائوں کی زنجیر بن جاتا ہے۔ لوہے کی نہیں سونے کی۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ 500 ملازمین کی فوج ظفر موج84 کروڑ سالانہ کے شاہانہ خرچ کیساتھ ایوانِ صدر میں صدرِمملکت کی منتظر ہوتی ہے۔ چلیں، بات صدر رفیق تارڑ تک بھی ٹھیک تھی۔۔۔ کہ نامور وکیل اور چیف جسٹس رہے تھے۔ آئین کی پاسداری کے بھی عملاً قائل تھے۔ مگر "دہی بھلے فیم" محترم ممنون حسین کی کیا مجبوری تھی۔ محترم میاں نوازشریف کی مہربانی کے سبب جو صدارت کا عہدہ جلیلہ ملا۔۔۔ اس کا تو یہی تقاضا تھا کہ اپنے وزیر اعظم کیساتھ اگر جیل نہ بھی جاتے تو کم از کم کراچی اپنے گھر ہی لوٹ جاتے۔ سنا ہے۔۔ اور اس کی تصدیق سندھ کے سابق گورنر محمد زبیر نے بھی کی کہ جاتی امراء میں پارٹی کی سنٹرل کمیٹی میں یہ طے ہوا تھا کہ محترم میاں نوازشریف کے نامزدکردہ چاروں گورنر اور صدر کو مستعفی ہوجاناچاہئے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے شریف گورنر نے تو پہل کردی۔ باقی تینوں صوبوں کے گورنروں نے کچھ وقت مانگا۔.۔ مگر۔۔۔ صدر ممنون حسین نے صاف انکار کردیاکہ بیس پچیس دن مزید ایوان صدر میں رہ گیا تو کون سے محترم میاں صاحب جیل سے چھوٹ جائیں گے۔ اڑتی اڑتی یہ بھی آئی کہ صدر ممنون حسین نے ن لیگ کے بڑوں کو یہ بھی پیغام دیا کہ برطانیہ کی ایڈنبرا یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دینے کااعلان کیا ہوا ہے جو انہیں 26 اگست کو ملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا اعزاز ہے جو ماضی میں کسی دوسرے صدرِمملکت کو نہیں ملا۔ ہئے ہئے۔۔۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا جنہوں نے مملکتِ خداداد پاکستان کی سب سے بڑی کرسی پر بٹھایا۔۔۔ وہ تو بیٹی سمیت چار حولداروں کیساتھ 12x6 فٹ کی کال کوٹھڑی میں قیام پذیر ہیں۔ خود معذرت کے ساتھ "بازاری" زبان میں انتہائی "ڈھٹائی" سے پانچ سو خادموں کے ساتھ آٹھ منزلہ شاہانہ محل میں مزید رہنے کی ضد۔۔۔ ہمارے تیرہویں نو منتخب صدر ڈاکٹر عارف علوی کو اپنے پیش رو صدر ممنون حسین کا ممنون و مشکورہونا چاہئے کہ انہوں نے اپنے دورِ صدارت میں مستقبل کے صدور کیلئے کیسی کیسی "شہد اور دودھ کی ندیاں"بہانے کا اہتمام کردیا۔۔۔ تنخواہ ہی دیکھ لیں۔۔۔ 1 لاکھ33ہزار تھی۔ سات گنا بڑھاکر 8لاکھ 46ہزار کردی۔ دیگر الائونسز میں بھی 1000فیصد اضافہ کرکے حقیقی معنوں میں بہ لحاظِ عہدہ اس سے بڑی کرسی پر بیٹھنے والے کیلئے یہی نہیں بلکہ (اللہ ہمارے ڈاکٹر عارف علوی کو ہر طرح کے حادثوں سے محفوظ رکھے)اہلِخانہ کے لئے بھی یہ اہتمام کردیا کہ اگر صدر دوران سفر کسی بھی سانحہ کا شکار ہوجائے تو فوری طور پر اہلیہ کو 10 لاکھ روپے بلا کسی تاخیر ادا کردئیے جائیں گے۔ تیرہویں منتخب صدر ڈاکٹر عارف علوی کی سب سے بڑی خوبی اور شہرت تو ان کی وفاداری ہی ہے۔ جس کے سبب انہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔ مگر۔۔۔ اس "کرسی" کے ساتھ بیوفائیوں کی بھی طوْل طویل تاریخ ہے۔ 1956کے آئین کے تحت پہلی بار اسکندر مرزا صدرِمملکت ہوئے تھے۔ جنہوں نے ایوب خان کو ترغیب دی کہ ملک کو سیاست دانوں سے بچانے کیلئے وہ خود صدر ہونگے اور ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر۔ دس دن نہیں گذرے تھے کہ ایوب خان ان کے عہدے پر بھی جھپٹ پڑے۔ کچھ اسی طور یہ عہدہ جنرل یحییٰ خان نے ان سے چھینا۔ اور پھر بھٹو صاحب کے بعد کی تاریخ تو ابھی کل کی بات لگتی ہے۔ مگر کیوں نہ اختتامِ کالم پر اپنے شہر کے صدر کو "گْڈ لک" کی دعا دے کے رخصت ہوجائوں۔