امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ کھڑے ہو کر تنازع فلسطین کے متعلق اپنا امن منصوبہ پیش کیا ہے۔ اس منصوبے میں یروشلم(بیت المقدس) کو اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت قرار دیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے منصوبے کو حقیقت پسندانہ دو ریاستی حل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہودیوں یا فلسطینیوں کو ان کے منصوبے پر عمل کی صورت میں اپنے گھروں سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ صدر ٹرمپ کے بقول ہو سکتا ہے کہ ان کا پیش کردہ منصوبہ فلسطینیوں کے لئے آخری موقع ہو۔ صدر ٹرمپ کے امن منصوبے پر فلسطینی عوام نے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ فلسطینی اس پر احتجاج کر رہے ہیں۔فلسطین کے صدر محمود عباس نے امریکی منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یروشلم برائے فروخت نہیں ہے‘ ہمارے حقوق برائے فروخت نہیں ہیں۔ آپ کا منصوبہ ‘ آپ کی سازش قبول نہیں‘‘۔ صدر ٹرمپ کے پلان کے اہم نکات کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ کسی طور بھی فلسطینیوں کے حق میں نہیں۔ ٹرمپ کے مجوزہ نقشے میں اسرائیل کے علاقائی سمجھوتوں کی جو نشاندہی کی گئی ہے وہ بھی فلسطینیوں کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ صدر ٹرمپ کے اعلان کے بعد عالمی میڈیا دنیا کو گمراہ کرنے کے لئے یہ ڈھونڈورا پیٹ رہا ہے کہ اس پلان کے بعد فلسطین کا علاقہ دوگنا ہو جائے گا حالانکہ اگر اس منصوبے پر عملدرآمد ہوتا ہے تو فلسطینیوں کو اپنے حقیقی حجم سے صرف 15فیصدعلاقہ دیا جائے گا۔جو کسی طور بھی فلسطینیوں سے انصاف نہیں ۔ ٹرمپ نے اپنے انتخابی وعدے کو پورا کرتے ہوئے پہلے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا تھا، اب اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے یہ منصوبہ تشکیل دیا گیا۔ فلسطینی آج بھی کہتے ہیں کہ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں مشرقی یروشلم پر اسرائیل نے قبضہ کیا وہی ان کی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت ہو گا ۔در حقیقت ٹرمپ آنے والے الیکشن سے قبل فلسطینیوں کو بزور طاقت ایک قطعہ اراضی تک محدود کر کے ان کی آزاد ریاست قائم کرنے پر زور دے رہے ہیںجو سراسر اسرائیل کے مفاد میںہے۔ عالمی برادری اور اقوام متحدہ مغربی کنارے پر اسرائیل کی غیر قانونی تعمیر شدہ یہودی بستیوں کے خاتمے پر زور دے چکے ہیں جبکہ امریکہ ان کے خاتمے میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ حالیہ پلان کے تحت بھی وہ بستیاں ختم نہیں کی جا سکیں گی۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ فلسطینیوں کے خلاف سازش ہے ۔ صدر ٹرمپ اور ان کے حامی مبصرین اس پلان کو ’’ڈیل آف دا سینچری‘‘ کہہ رہے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پرانے تنازعات کے خاتمے کا حل قریب ہے لیکن حقیقت میںیہ ڈیل نہیں بلکہ طاقت کے بل بوتے پر مسلمانوں اور خاص طور پر فلسطینیوں کی آزادی کو سلب کرنے کا منصوبہ ہے جسے کسی طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتاہے۔آج پوری دنیا اس منصوبے کے خلاف صف آرا ء ہے لیکن امریکہ سمیت عالمی برادری ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے ۔ تنازع فلسطین کی بنیاد دوسری جنگ عظیم کے بعد فاتح اتحادیوں نے رکھی۔ ایک طرف جرمنی کی اتحادی ترک سلطنت کے ٹکڑے کئے گئے اور دوسری طرف ساری دنیا سے یہودیوں کو لا کر فلسطینی علاقے میں آباد کیا جانے لگا۔ یہ آباد کاری جلد اسرائیل کے نام سے ریاست کی صورت اختیار کر گئی جس نے مقامی عربوں کی زمینیں ہتھیا کر ناجائز بستیاں تعمیر کرنا شروع کر دیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے نقشوں کی مدد سے واضح کیا کہ سال بہ سال اسرائیل نے کس طرح فلسطینی علاقے پر قبضہ کیا اور اقوام عالم خاموش رہیں۔ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے مختلف حل زیر بحث رہے ہیں ان میں سے دو ریاستی حل 1947ء میں تجویز کی صورت سامنے آیا جب اقوام متحدہ نے برطانیہ کے زیر انتظام فلسطینی علاقے میں یہودی ریاست کے قیام کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس قرار داد میں کہا گیا کہ فلسطین میں دو ریاستیں قائم کی جائیں گی، ایک یہودی ریاست اور دوسری عرب۔1968ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے مزید عرب علاقوں پر قبضہ کر لیا۔1990ء میں اوسلو معاہدہ ہوا مگر اس پر عملدرآمد کی نوبت نہ آ سکی۔ صدر ٹرمپ اقتدار میں آنے سے قبل سے اسرائیل کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ان کے یہودی داماد اس سلسلے میں ان کی رائے پر اثر رکھتے ہیں۔اب بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کے اس منصوبے کے خدوخال کو ان کے داماد جیرڈ کشنر نے حتمی شکل دی ہے اور اس سارے منصوبے کو انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا ۔ برسر اقتدار آنے کے بعد صدر ٹرمپ نے امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کی ہدایت کی جس کا مقصد بیت المقدس کے سب مذاہب کے پیرو کاروں کے لئے کھلا شہر کی حیثیت ختم کرنا ہے۔ ان کے تازہ امن منصوبے میں سب سے قابل اعتراض یہی امر ہے کہ انہوں نے بیت المقدس کو کلی طور پر اسرائیل کے قبضے میں دینے کی حمایت کی ہے۔ بلا شبہ مشرق وسطیٰ ایک حساس علاقہ ہے۔ اس علاقے میں پہلے ہی جنگیں اور تنازعات نسل انسانی کے لئے خطرہ بن چکے ہیں ایک عالمی طاقت کے بااختیار حکمران کے طور پر صدر ٹرمپ اپنے غیر منصفانہ منصوبے پر اصرار جاری رکھتے ہیں تو امن کی بجائے یہ منصوبہ خطے میں نئی تباہی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔