یہ نکتہ قابل غور ہے کہ افغانستان سے تو صدر ٹرمپ نے تا حال فوجی انخلا کا سرکاری طور پہ اعلان نہیں کیا اور جیسا کہ گزشتہ کالم میں بیان کیا گیا تھا کہ بلیک واٹر اور دیگر پرائیویٹ عسکری تنظیموں کو زمام کار تھما کر دو طرفہ منافقانہ پالیسی اختیار کی گئی جس پہ پینٹاگون بھی متفق ہوگیا ہے لیکن شام سے امریکی افواج کا انخلا انیس دسمبر سے نہ صرف شروع ہوگیا ہے بلکہ شمال مشرقی صوبہ حساکہ کے شہر الملیکیہ سے پہلا امریکی فوجی کانوائے سرحد عبور کرکے عراق پہنچ گیا ہے جہاں امریکی فوج کی قابل ذکر تعداد موجود ہے جو شام میں کسی بھی ناخوشگوار صورت حال سے نمٹنے کے لئے عراق میں موجود رہیں گی۔اور یہی وہ پروگرام تھا جس کا اعلان جم میٹس اپریل میں کرچکے تھے ۔ اس سلسلے میں ان کا استعفیٰ محض پینٹاگون کے بجٹ میں کٹوتی کی وجہ سے ہے اس کا شام سے امریکی افواج کے انخلا کا کوئی تعلق نہیں ۔شام سے افغانستان کے برخلاف امریکی افواج کا انخلا واقعتا کیوں شروع ہوگیا ہے۔ یہ عالمی منظرنامے کاآئندہ رخ متعین کرتا سوال ہے۔ شام کی پیچیدہ عسکری صورتحال میں کل تک جو خدشات تھے وہ آج حقیقت بن چکے ہیں ۔عراق پہ امریکی قبضے سے قبل ہی ابو مصعب الزرقاوی داعش کی بنیاد رکھ چکے تھے جس نے بعد ازاں عراق سے امریکی افواج کے اچانک انخلا کے بعد ابو بکر بغدادی کی سربراہی میں عراق اور شام کے بیشتر علاقوں پہ قبضہ کرلیا ۔ داعش کا نام ہی اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ لیونٹ تھا۔عرب لیونٹ میں اسرائیل ، اردن،شام ،عراق، لبنان، فلسطین ، قبرص اور ترکی کے کچھ علاقے شامل ہیں۔گویا اسلامی اسٹیٹ کا مطمح نظر ان تمام علاقوں پہ قبضہ کرنا تھا۔یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ابو مصعب الزرقاوی عراق میں شیعہ رسوخ کے خلاف اٹھے تھے اور ابوبکر بغدادی کی القاعدہ سے علیحدگی کی وجہ بھی القاعدہ کے ایران کے ساتھ روابط تھے۔ عرب بہار نے جب شام کا رخ کیا تو بشا رالاسد کے خلاف اٹھنے والے مقامی عسکری جتھوں کے سر پہ ہر عالمی قوت نے ہاتھ رکھا لیکن حیرت انگیز طور پہ داعش جو بشار الاسد کے خلاف سب سے بڑی اور موثر ترین قوت تھی اس حمایت سے نہ صرف محروم رہی بلکہ دنیا بھر میں امریکہ سمیت ہر ملک نے اس کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔حتی کے بشار الاسد کے پشتیبان، ایران نے امریکی سربراہی میں داعش کے خلاف عالمی اتحاد میں شمولیت کے لئے روس پہ زور ڈالنا شروع کردیا۔ساری دنیا کا ایک ہی مقصد نظر آنے لگا اور وہ تھا داعش کا خاتمہ اور وہ کیا بھی گیا۔ ایران اور روس بشار الاسد کا اقتدار بچانے کھڑے ہوگئے لیکن ہر کسی کا اس خطے میں اپنا ہی مقصد تھا اور وہ تھا عرب لیونٹ کے علاقوں پہ قبضہ۔ایران نے اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔عراق میں صدام حسین کے عبرت ناک انجام کے بعد قائم ہونے والی جمہوریت کے طفیل اس کی حمایت یافتہ ملیشیا پارلیمنٹ میں پہلے ہی موجود تھی۔لبنان میں وہ عرصے سے موجود ہے۔یمن میں وہ حوثی باغیوں کی کھلم کھلا سرپرستی کررہا ہے ۔ شام میں روس کے ساتھ مل کر اس نے اپنے مقاصد پورے کئے اور جہاں جہاں داعش کا قبضہ تھا وہاں حزب اللہ کو اتار دیا گیا۔حلب ، رقہ،دیر الزور ،دمشق،حمہ،حمص،خان شیخون ، العزیزیہ،حساکہ وغیرہ۔حیرت انگیز طور پہ حزب اللہ اور پاسداران کو کھلی چھوٹ دے دی گئی اور اس کے واحد بڑے دشمن کا مل جل کر صفایا کردیا گیا۔اس وقت شا م میں ایرانی فوج اور پاسداران کے پانچ کمانڈ، تیرہ فوجی اڈے اور قریبا ایک لاکھ نفری موجود ہے۔یہ پانچ کمانڈ بیس دمشق میں واقع ایرانی ہیڈکوارٹر سے براہ راست منسلک ہیں اور شام کے تمام ترکی،عراق اور اردن سے منسلک سرحدی علاقوں میں نہایت اہم مقامات پہ قائم کئے گئے ہیں۔ یہی وہ علاقے ہیں جو ہلال ایران کا اندرونی خم ہیں۔التنف میں جو شام اردن اور عراق کا انتہائی اہم سرحدی علاقہ ہے امریکی اڈے کے گرد حزب اللہ کی پیش قدمی عروج پہ ہے۔ اگر یہاں سے بھی امریکی افواج نکل گئیں تو یہ آخری کانٹا بھی نکل جائے گا۔کردوں کا صفایا ترکی اب خود کرے گا۔عراق سے امریکی افواج کے اچانک انخلا نے داعش کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا جس پہ صدر ٹرمپ نے اوباما کے خوب لتے لئے لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں کہ آج ان ہی کو شام میں ایرانی موجودگی پہ تشویش نہیں ہے اور وہ عین وہی پالیسی بلا خوف و خطر اپنانے جارہے ہیں؟ شام میں کھل کھیلنے کا پورا موقع دینے کے بعد اسرائیل کے شکوے پہ ایران کو contain کرنے کے عزائم اس وقت کہاں ہیں جب امریکہ کھلا محاذ ایران کے حوالے کر کے شام سے نکل رہا ہے جبکہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے نکلنے اور اس پہ پابندیاں لگانے کا ایک مقصد اسے شام سے نکلنے پہ مجبور کرنا بھی تھا۔اس حیرت کا جواب ایک اور حیرت ہے اور وہ ہے اسرائیل جس کے گریٹر اسرائیل کا خواب مصر کے نیل سے فرات کے کنارے تک پھیلا ہوا ہے اور جس میں اردن سمیت سعودی عرب کا شمالی علاقہ،نصف عراق اور پورا شام شامل ہے۔ان میں بیشتر علاقوں پہ اس وقت ایران عملی طور پہ موجود ہے اور ایران اسرائیل جنگ کا پورا امکان موجود ہے جس کی تصدیق روس نے اسرائیل کو مبینہ جنگ میں حمایت کی یقین دہانی کی صورت میں کردی ہے ۔اس جنگ میں ایران کی حکمت عملی اس کی پوزیشن کو واضح کرے گی ۔اگر وہ اسی طرح اسرائیل کو راستہ دیتا گیا جیسا کہ داعش کے لئے عراقی اور شامی افواج نے دیا تھا تو معاملہ مشکوک ہوجائے گا اور دنیا سکرپٹ کے مطابق مکمل طور پہ تبدیل ہوجائے گی ۔ کیا عجیب بات نہیں کہ ترکی کردوں کی امریکی حمایت پہ توخار کھائے بیٹھا ہے لیکن عراقی کردستان سے تیل کی ترسیل ترکی کی بندرگاہ چیحان سے اسرائیل کو بلاتعطل ہورہی ہے؟ اسرائیل نے فلسطینیوں پہ مظالم میں اضافہ کردیا ہے ۔ مسلمانوں کی نسل کشی کی رفتار میں اضافہ ہوگیا ہے۔ قبلہ اول اس وقت عملی طور پہ یہودیوں کے قبضے میں ہے۔اردن نے اسرائیل کو لیز پہ دی گئی زمینوں میں توسیع سے انکار کیا توجمال خاشقجی ترکی میں ظالمانہ طریقے مار ڈالا گیا۔ سعودی عرب پہ دبائو بڑھا یا گیا اور اس نے شام کی تعمیر نو کا خرچہ اٹھانے کی حامی بھرلی اور اردن پہ لیز میں توسیع کے لئے دبائو ڈالنے کوشش کی جو شاہ عبداللہ نے رد کردی تو اردن میں عوامی مظاہرے شروع ہوگئے ۔ یہ سب بلاوجہ نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ نے جس وقت یروشلم میں امریکی سفارتخانے کی منتقلی کا اعلان کیا تھا ، مشرق وسطی کے نباض سمجھ گئے تھے کہ ا ب طاقت کا توازن امریکہ سے اسرائیل کی طرف منتقل ہونے والا ہے۔ وہ اقتدار میں آنے سے قبل امریکی افواج کو دنیا بھر سے واپس بلانے اور اخراجات کم کرنے کے عزائم کی طے شدہ منصوبے کے مطابق تکمیل کررہے ہیں جہاں ایک محفوظ اور لاتعلق نیا امریکہ دنیا کی سربراہی سے دستبردار ہوجائے گا اور دنیا پہ گریٹر اسرائیل کی عملاً حکمرانی ہوگی۔(ختم شد)