معزز قارئین!۔ آئین پاکستان کی رُو سے صدرِ پاکستان جناب عارف اُلرحمن علوی، پاکستان کی مسلح افواج کے ’’سپریم کمانڈر‘‘ ہیں لیکن ، پرسوں (22 ستمبر ) کی شب ایک نیوز چینل پر معروف صحافی سہیل وڑائچ کو انٹرویو دیتے ہُوئے اُنہوں نے کہا کہ ’’ مَیں صدرِ پاکستان کی بھاری ذمہ داری کا بہت زیادہ بوجھ محسوس کرتا ہُوں لیکن میرے پاس "Executive Authority" نہیں ہے ۔ اِس لئے مَیں بہت سے کام نہیں کرسکتا، مجھے احساس ہے کہ "Governance" ( حکمرانی / حاکمیت) میں معاملات آہستہ آہستہ چلتے اور دیر سے ہوتے ہیں ، قانون کی چھلنیوں سے (Bureaucratic Papers) کو گزرتے بہت وقت لگتا ہے ۔ صدرِ محترم نے مزید کہا کہ ’’ صدر کا عہدہؔ سیاسی ہے مگر اِن معنوں میں غیر سیاسی ہے کہ صدر سیاسی جھکائو نہ ہو ، قومی اسمبلی اور سینٹ کا سربراہ صدر ہوتا ہے۔ آئین کے مطابق وزیراعظم اور حکومت مجھے خارجہ پالیسی امور اور زیر التوا قانون سازی پر آگاہ رکھیں گے!۔ جنابِ صدر نے کہا کہ ’’ پارلیمنٹ ہائوس میں صدر کے دفتر میں اپوزیشن کے لیڈروں سے بھی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں ۔ مولانا فضل اُلرحمن اگر مجھ سے ملنا چاہیں تو مَیں انکار نہیں کروں گا‘‘۔ معزز قارئین!۔ بھولے صدر صاحب!۔ فضل اُلرحمن صاحب تو ، سابقہ بااختیار صدور،، صدر جنرل پرویز مشرف اور صدر آصف زرداری سے اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے رہے ہیں اور پھر با اختیار وزیراعظم میاں نواز شریف سے۔ اُنہوں نے تو صدر سیّد ممنون حسین سے کبھی دُعا و سلام کی زحمت نہیں اُٹھائی تو ، بھلا وہ وزیراعظم عمرا ن خان کے ہوتے ہُوئے آپ سے ملاقات کی خواہش کیوں کریں گے؟۔ صدر عارف اُلرحمن علوی ، اولادِ مولا علی ؑ ہیں لیکن اپنے انٹرویو میں اُنہوں نے بڑی سادگی سے بتا دِیا کہ ’’ میری چار نسلیں "Dentistry" (دندان سازی ) سے منسلک رہی ہیں ‘‘ ۔ یہ جنابِ صدر کا انکسارؔ ہے ۔ شاید یہ موصوف کا انکسار ہی تھا / ہے کہ انہیں صدارت کا بلند مرتبہ مِلا۔ اُستاد شاعر صریر لکھنوی ؔنے اپنے بارے میں کہا تھا کہ … زمیں سے سُوئے گردوں ، میرا غُبار بڑھا! بلند رُتبہ ہُوا، جتنا انکسار بڑھا! سابق چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ میاں محبوب احمد نے "Suo Moto" ( از خود نوٹس ) لِیا اور ڈاکٹر حبیب اُلرحمن (مرحوم) کو "Gold Madel" سے نوازا اور اِسے صدرِ پاکستان کے گلے میں ڈال دِیا۔ اُس کے بعد مجھے جنابِ صدر اپنے اپنے لگے۔ اِس لئے کہ میرے والد صاحب رانا فضل محمد چوہان بھی پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش میں تحریک پاکستان کے 1400( گولڈ میڈلسٹ) کارکنوں میں شامل ہیں ۔ صدرِ محترم عارف اُلرحمن علوی صاحب کی خدمت میں اطلاعاً عرض ہے کہ ’’لاہور میں تحریک پاکستان کے دو (گولڈ میڈلسٹ ) کارکنوں (سابق صدرِ پاکستان) چودھری محمد رفیق تارڑ اور چودھری ظفر اللہ خان کو پنجابی، اردو اور فارسی کے ہزاروں شعر یاد ہیں اور جب کوئی اُن سے رجوع کرتا ہے تو وہ صلائے عام کی طور پر پیش کردیتے ہیں۔ ’’صدر مشاعرہ / مہمان خصوصی؟‘‘ معزز قارئین!۔ مَیں نے 1956ء میں شاعری شروع کی تھی اور پھر مجھے بہت سے مشاعروں میں شرکت کا موقع ملا۔ پختہ عُمر میں صدر مشاعرہ / مہمان خصوصی کی حیثیت سے بھی ۔ صِرف ایک واقعہ بیان کرتا ہُوں ۔ 3 اکتوبر 2013ء کی شام ’’ بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی اور گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کے شہر ’’ گلاسگو ‘‘ میں ، وہاں کی دو ادبی اور ثقافتی تنظیموں ،محترمہ راحت زاہد کی چیئرمین شِپ میں ’’بزمِ شعر و نغمہ ‘‘ اور شیخ محمد اشرف کی چیئرمین شِپ میں ’’گلاسگو انٹر کلچرل آرٹس گروپ ‘‘ کے اشتراک سے "York Hill Hospital" کے لئے فنڈز اکٹھا کرنے کے لئے مشاعرے کا اہتمام تھااور داخلہ ٹکٹ تھا 12 برطانوی پائونڈ ز ۔ مشاعرے میں نئی نسل کے خوبرو نمائندہ شاعر ، ڈرامہ نگار، اینکر پرسن اور اداکار ، وصی ؔشاہ مہمان خصوصی تھے اور مَیں صدر ِمشاعرہ۔ صدر مشاعرہ پروٹوکول کا پابند ہوتا ہے ۔ وہ کسی شاعر کے کلام سے مشتعل ہو کر سامعین کے ساتھ مل کر "Hotting" نہیں کرسکتا۔ مَیں نے ایسا ہی کِیا اور 6 گھنٹے تک کرسی صدارت پر بیٹھ کر مَیں ہر شاعر اور شاعرہ کو داد دیتا رہا۔ کراچی کی محترمہ ریحان روحی ، عالمی شہرت یافتہ شاعرہ اور آزادیٔ نسواں کی علمبردار تھیں / ہیں لیکن، مشرقی حدود میں رہ کر اُنہوں نے اپنی زور دار شاعری اور اندازِ بیاں سے مشاعرہ لوٹ لِیا تھا۔ مَیں اِس فکر میں تھا کہ ’’ اب وصی ؔ شاہ صاحب کے لُوٹنے کے لئے کیا رہ گیا ہے ؟‘‘۔ اور جب وصیؔ شاہ صاحب سٹیج پر آئے تو، نئی نسل کی خواتین اور حضرات نے بھی اُنہیں ہاتھوں ہاتھ لِیا ۔ خوبصورت شاعری کرنے والے خوبصورت وصیؔ شاہ کو خوبصورتی کے نمبر بھی مل گئے۔ شیخ محمد اشرف کی ہمشیرہ محترمہ تسنیم سعید نے نعت رسول مقبولؐ پیش کرکے ماحول کو پاکیزہ بنا دیا۔ یارک شائر کے اشتیاق مِیر نے مِیر تقی میر کے انداز میں اور اپنے انداز میں بھی غزل سرائی کی اور محترمہ غزل انصاری نے بھی بہت زور غزل میں مارا۔ ایڈمبرا کی محترمہ بُشریٰ غوری بھی اپنے مترنم کلام کی وجہ سے توجہ کا مرکز رہیں۔ احمد ریاض، ڈاکٹر شفیع کوثر، میجر ماجد، احسان شاہد، احسن گوہر، ناصر محمود، کشور ثبات، اظہر اور سعیدہ ڈار نے اپنے اپنے رَنگ تغزل سے مشاعرہ ہال میں کہکشاں کا سماں پیدا کر دیا۔ برطانیہ کے غیر تحریری آئین کی طرح میرا اور میرے ’’سرگودھوی دوست ‘‘وصیؔ شاہ سے ستائش باہمی کا معاہدہ ہوگیا تھا۔ وصی ؔ شاہ صاحب سٹیج پر آئے تو ، اُنہوں نے حاضرین سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ نامور شاعر، صحافی اور دانشور اثر چوہان صاحب نے مجھے اِس پیغام کے ساتھ ’’ قلم کا تحفہ ‘‘دِیا ہے کہ ’’ مَیں دِئیے سے دِیا جلائے رکھوں‘‘۔ اُنہوں نے مجھے گلے لگاتے ہُوئے یہ شعر بھی پڑھا تھا کہ … دیا دیئے سے جلا لُوں، تو چین آئے گا! تمہیں گلے سے لگا لوں، تو چین آئے گا! مَیں نے تبرکاً صدارتی خطبہ دِیا اور کہا کہ ’’ ہر مشاعرے کے صدر کے پوزیشن ، سابق صدورِ پاکستان چودھری فضل الٰہی اور چودھری محمد رفیق تارڑ کی اور موجودہ صدر سیّد ممنون حسین کی سی ہوتی ہے اور مہمانِ خصوصی کی بااختیار وزیرعظم کی طرح ، جیسے ذوالفقار علی بھٹو تھے اور اب میاں نواز شریف ۔ مَیں نے نئی نسل کے نمائندہ شاعر وصیؔ شاہ کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لئے اُنہیں قلم کا تحفہ پیش کردِیا ہے ( مَیں نے شاہ صاحب کو تحفہ پیش کِیا تو ہال تالیوں سے گونج اُٹھا) ۔ اُس سے پہلے محترمہ سعیدہ ڈار نے پنجابی کلام سنایا تو مجھے بھی اپنی پنجابی نظم سنانے کا موقع مل گیا۔ نظم کا عنوان تھا.... ’’دل میرا، میری جان، کراچی لہولہان‘‘ یہ نظم مَیں نے 2011ء میں اپنے اخباری سائز پنجابی جریدہ ’’ چانن‘‘ میں شائع کی تھی اور اُن دِنوں کراچی کے حالات بہت ہی خراب تھے۔ آج بھی کراچی کے حالات بہت خراب ہیں اور کراچوی ؔصدر عارف اُلرحمن علوی کو اِس بات کی فکر ہے کہ اُن کا کراچی’’ کچرا شہر‘‘ کیوں بن گیا؟۔ بہرحال مَیںصدرِ پاکستان کی خدمت میں اپنی نظم کا مطلع اور تین بند پیش کر رہا ہوں ،گر قبول اُفتد زہے عزّ و شرف۔ … ’’دل میرا، میری جان، کراچی لہولہان‘‘ … O… پردیسی ، لوڑ دَنداں تے ، شفقت والے سائبان! ہر قومیت دے ، لوکاں تے ، ہر ویلے ، مہربان! جِس دے ، وجود نال ، مرے مُلک دِی، پچھان! دِل میرا ، میری جان ، کراچی ، لہولہان! …O… لگ گئی ، کِسے دِی ، بَھیڑی نظر ، سوہنے شہر ، نُوں! ٹالے گا کون ؟ کِس طراں ؟ قُدرت دے قہر نُوں! بچّے، بُزرگ ، عورتاں، مُرجھا گئے جوان! دِل میرا ، میری جان ، کراچی ، لہولہان! …O… کُجھ لوک، بھتّہ خور ، نیں ، کُجھ ڈاکو ، چور ، نیں! کُجھ ، شکل مومناں ، وِی نیں ، وِچّوں کجھ ، ہور ، نیں! ویلھے جے ہون ، بچّیاں نُوں ، روٹی کیویں کھوان! دِل میرا ، میری جان ، کراچی ، لہولہان!