صدر جوبائیڈن جہاندیدہ اور عمر رسیدہ امریکی صدر ہیں جبکہ نائب صدر بھارت نژاد کمیلا ھیرث ہیں، جن کے شوہر ھیرث وکیل ہیں اور عالمی صہیونی تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں۔ جوبائیڈن صدر بننے سے پہلے سی آئی اے کی خفیہ منصوبہ بندی اور انتہائی اہم آپریشن کے سربراہ رہے ہیں۔ بعدازاں جوبائیڈن سی آئی اے کے چیف بھی رہے ہیں یعنی ان کی چال گہری اور پوشیدہ ہوتی ہیں‘ اس وقت جوبائیڈن اسی برس کے ہونے کو ہیں۔ یہ غم کشیدہ اور ضعیف بھی ہیں۔ ان کی بیوی‘ بیٹا کار حادثہ میںفوت ہوئے۔ دوسرے بیٹے کو منشیات کی بیماری کی وجہ سے امریکی بحری فوج سے نکال دیا گیا اور یہ خود بھی کار حادثہ میں خطرناک آپریشنز کے بعد بچے ہیں۔ القصہ ان کی صدارت اور حکمرانی سی آئی اے کی رہنما پالیسی پر استوار ہے۔ یہ بعض پاکستانی صدور کی طرح نہیں کہ جن کی بات قصر صدارت کا ایک فرد ہی جان سکے کہ وہ کیا بڑ بڑا رہے ہیں۔ نہ ان کی بیماری یا نشے کی کیفیت ایسی ہے کہ یہ رات کو دھوپ کا سیاہ چشمہ لگا کر بات کرتے ہوں۔ بدقسمتی سے آج عالمی سیاست و حکومت سیاسی مدبرین کے بجائے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سرگرمیوں سے جنم لیتی ہے، جو انٹیلی جنس اہلکار چاہتے ہیں ،پاتے ہیں۔ امریکہ میں راج سی آئی اے کا ہے۔ ایف بی آئی انتظامی اہلکار ہیں۔ٹرمپ ہو یا جوبائیڈن سی آئی اے کی پالیسی کے پابند ہیں۔ انٹیلی جنس کی وفاداری مفاداتی پالیسی سے ہوتی ہے۔ ریاست‘ حکومت یا عوام سے نہیں۔ یہ مفادات کے جائزہ اور ناجائز حصول کے لیے حکومت بنانا اور گرانا کا کھیل کھیلتے ہیں۔ یہ اپنے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ مفادات کے لیے ریاست کو روپ بہروپ بلکہ سوروپ کا میک اپ بھی کرتے ہیں۔ عالمی سیاست و حکومت کا بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ عالمی انٹیلی جنس ایجنسیاں علاقائی ایجنسیوں کے ساتھ ساز باز اور گٹھ جوڑ کر کے غیر معمولی‘ حیران کن اور ناقابل یقین میل جول اور معاہدات کے تزویراتی دام‘ چال اور جال بنتے رہتے ہیں۔ عالمی سیاست و حکومت میں دوستی اور دشمنی عارضی فوری اور دائمی مفادات کے حصول کے مطابق چلتی ہے۔ امریکی تاریخ شاہد ہے کہ یہ صہیونی مفادات کی حامی و محافظ ہے اور جب برطانیہ‘ امریکہ اور روس نے مل کر خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کئے تو موعودہ خطے میں یہودی ریاست اسرائیل کے عالمی بانیان میں شامل ہوئے۔ حالیہ تاریخ ہے کہ ٹرمپ کو سی آئی اے کا روس نواز حلقہ لے کر آیا جو روسی صدر پیوٹن کے لیے کام کرتا تھا۔ ٹرمپ نے پاکستان کے اندر مرضی کی حکومت جارحانہ انداز میں بنائی اور گرائی۔ اور نئی پاک حکومت کے ذاتی دوست اور حلیف بن گئے اور اسی طرح چاغی کے جوہری دھماکوں کا زبردستی حساب چکایا۔ جب پاکستان میں یار کی حکومت بن گئی تو امریکہ میں بظاہر یار دشمن سرکار سازی کر دی جبکہ دونوں جانب حکومتوں کا آغاز جانا سی آئی اے کا مرہون منت ہے۔ بدقسمتی سے عالمی مرضی کی سرکار سازی کا اختیار سی آئی اے کے بے دام اہلکاروں کی سرگرمی پر منحصر ہے۔ روسی انخلا میں پاک سرزمین راہداری کے طور پر استعمال نہیں ہونا تھی مگر محفوظ فوجی انخلا اور وسیع البنیاد افغان سرکار سازی کے لیے روس اور امریکہ نے ہنسکی معاہدے کے زیر اثر مشترکہ مفاداتی پالیسی بنائی۔ سرد جنگ ختم کی۔ روس امریکہ نے پاکستان میں مجاہدین کے سرپرست شہید افغانستان جنرل ضیاء الحق کو راہ سے ہٹایا اور پاکستان میں امریکہ و روس کے مشترکہ مفادات کی بے نظیر سرکار سازی کی جو تاحال جاری ہے۔ اس عالمی یکجہتی کی پالیسی میں پاکستان کی واضح صف بندی کے امکانات کم ہیں لہذا پاکستان کو نئی عالمی جکڑ بندی کے زیر اثر روس نوازی کی تہمت لگا کر ہدف بنایا جارہا ہے۔ نیز چین عالمی معاشی صنعتی اور فوجی قوت ہے۔ نواز سرکار کے دور میں پاک چین دفاعی معاہدے پر دستخط ہونا تھے تو پاکستان میں دھرنا سیاست کو چین دشمنی عالمی سرپرستی میسر آ گئی۔ یاد رہے کہ پاک چین دفاعی معاہدے کے تحت پاکستان کوبھارتی‘ امریکی اور روسی جارحیت کے خطرات سے نجات مل جاتی اور یہ معاہدہ پاکستان کے اندر معاشی سیاسی اور انتظامی استحکام فراہم کرتا۔ بقول اقبال: وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا رہا معاملہ یہ کہ کیا روس اور امریکہ واقعی دشمن اور حریف ہیں یا دنیا کو ماضی کی طرح سرخ اور سبز میں بانٹ کر بے دام حلیف اور حریف بنانا ہے۔ فی الحال بظاہر یہ سی آئی اے اور کے جی بی کی کامیابی ہے کہ دنیا کو دوبارہ افغان جہاد سے پہلے کی طرح امریکی اور روسی بلاک بندی کا شکار کر دیا ہے۔ نیز دریں تناظر امریکہ و اسرائیل کے حریف اول چین کو عالمی امور میں روسی دم چھلا بنا دیا ہے۔ یاد رہے کہ عالمی اور علاقائی امور میں‘ امریکہ‘ اسرائیل اور یورپی ممالک بھارت کے دفاعی حلیف اور سٹریٹجک امور میں شراکت دار ہیں۔ روس اور امریکہ کی حسب ضرورت یعنی اسرائیل استعمار کے لیے مشترکہ مفاد اور یکجہتی کی پالیسی ایک ہے۔ عراق کے صدر صدام روسی بلاک میں تھے مگر روس نے امریکی یلغار اور وار کے خلاف صدام کی مدد نہیں کی۔ شام کا صدر بالواسطہ اسرائیل نواز ہے جبکہ عوام اسرائیل استعمار کے خلاف ہو سکتے تھے لہٰذا روس اور امریکہ دونوں نے مل کر شامی مسلمان عوام کو مارا۔ مگر بظاہر روس نواز شامی صدر بشارالاسد کی حکومت ختم نہیں کی مگر آج اسرائیلی استعمار کے خلاف ممکنہ شامی عوام کی کمر توڑ دی اور اب اس سے ملنا جلنا ڈرامہ یوکرائن میں چل رہا ہے۔ اب ایسی ہی صورتحال سے روس‘ امریکہ‘ اسرائیل‘ بھارت اور عالمی طاقتیں اور ادارے پاکستان کو دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں عالمی یکجہتی کے بجائے قومی یکجہتی پر مبنی سرکار سازی کی ضرورت ہے جو سب سے پہلے دین اور وطن کو ترجیح دے۔ واللہ اعلم بالصواب۔