بلاول بھٹو زرداری بنگلہ دیش بننے کی تاریخ سے عدم واقفیت کی وجہ سے غصے میں کچھ اس طرح خدشات کا اظہار فرما رہے ہیں جو کہ ان کی جماعت کی سیا ست سے میل نہیں کھاتا۔ بینظیر بھٹو اور اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کی شہادتوں پر جو جماعت پاکستان کھپے پر یقین رکھتی رہی ہے اس کی طرف سے بنگلہ دیش کی علیحدگی اور موجودہ پاکستان کی صورتحال کے درمیان موازنہ بیجا ہے کہ کوئی اور دیش بھی پاکستان کے اندر بن سکتا ہے۔یہ صرف پاکستان ہے اور انشاء اللہ ایک اکائی کے طور پر قائم رہے گا جس میں صوبے ضرور ہیں اور مزید بھی ہو سکتے ہیں لیکن کسی دیش کی کوئی گنجائش نہیں۔پختونستان بنانے کی سازش سے لیکرجناح پور تک بہت سے لوگوں نے کوشش کی بلکہ بلوچستان کے حوالے سے تو ابھی تک ملک سے باہر بیٹھے لوگ سازشوں میں لگے ہوئے ہیں لیکن کبھی انکو کامیابی نہیں ملے گی۔ کیونکہ گزشتہ دو دہائیوں میں جس مشکل مرحلے سے گزر کر جس میں ملک کے اندر اور باہر کی طاقتوں نے اسکو کمزور کرنے اور توڑنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیںکیا ، پاکستان جہاں تک پہنچا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قائم رہنے کے لئے ہے اور ہر نئے دن کے ساتھ مضبوط ہوتا چلا جائے گا۔بلاول بھٹو کے خدشات کو زیادہ سنجیدگی سے تو نہیں لینا چاہیئے لیکن نظر انداز کرنا بھی درست نہیں کیونکہ کچھ مخصوص سیاسی راہنمائوں کی طرف سے اس قسم کی باتیں مختلف اوقات میں کہی جاتی رہی ہیں میاں نوازشریف نے گزشتہ سال بنگالی لیڈر شیخ مجیب الرحمان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک محب وطن تھا جس کو غدار بنا دیا گیا۔ وہ اپنے خلاف کرپشن کے مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے اسے اسی قسم کی کاروائی قرار دے رہے تھے جو محب وطن کو غدار بنا سکتی ہے۔اس بیان پر بلاول بھٹو کے والد محترم آصف زرداری نے نواز شریف کو خوب کھری کھری سنائیں۔ انہوں نے ملفوف الفاظ میں نواز شریف کو سکیورٹی رسک قرار دیا اور کہا کہ ہم اسکو معمولی سیاسی فائدے کے لئے شیخ مجیب نہیں بننے دیں گے۔آصف زرداری نے مزید کہا کہ نواز شریف اپنے سیاسی فائدے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نظریہ پاکستان سے منحرف ہو چکے ہیں۔وہ پاکستان کی سیکورٹی کی قیمت پر شیخ مجیب بننا چاہتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کو سندھو دیش، سرائیکی دیش اور دوسرے دیش بننے کے خدشات کے اظہار سے پہلے اپنے والد صاحب سے ایک دفعہ ضرور مشورہ کر لینا چاہئے تھا۔ پاکستان کھپے کا نعرہ بار بار اور ہر حال میں لگانے والی اور اس پر یقین رکھنے والی جماعت کسی بھی سیاق و سباق کے ساتھ اس قسم کا خدشہ ظاہر کرتی ہے تو اسکا فائدہ ان لوگوں کے بیانئے کو پہنچتا ہے جنہوں نے پاکستان کے وجود کو کبھی تسلیم نہیں کیا بلکہ تشکیل پاکستان کے وقت وہ دوسری طرف کھڑے تھے اور کافر اعظم کے فتوے دے رہے تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے حال ہی میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے جواب میں اسی قسم کی طنز کی اور انکے کشمیر کے حوالے سے، آخری گولی، آخری سپاہی تک لڑنے والے بیان کا بنگلہ دیش کی جنگ کے نتیجے کے حوالے سے مذاق اڑایا۔جنرل مشرف سے فیضیاب ہونے والے مولا نا فضل الرحمٰن جو شاید 2002کے انتخابات کے بعد کبھی صوبے تو کیا کسی ضلع کی حکومت کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں کر سکتے، وہ پاکستان کی موجودہ فوج کے بارے میں بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔اسی فوج کی وجہ سے آج وہ ان خطرناک علاقوں میں جہاں وہ گھس بھی نہیں سکتے تھے، دندناتے پھرتے ہیں۔ اپنے گھر ڈیرہ اسمعٰیل خان میں بھی وہ خود کو محفوظ نہیں سمجھتے تھے لیکن 2018 کے انتخابات اور اسکے بعد انہوں نے ہر جگہ پر کھل کر جلسے کئے ہیں۔ پہلے نواز شریف، پھر مولانا فضل الرحمٰن اور اب بلاول بھٹو زرداری جب ایک جیسے بیانئے کو فروغ دیتے نظر آئیں تو فکرمندی بہرحال ہونی چاہئے۔مسئلہ یہ نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور نہ ہی کسی کی حب الوطنی پر شک کا معاملہ ہے بلکہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کیوں کہہ رہے ہیں۔اسکی ایک وجہ وہی ہو سکتی ہے جو پاکستان تحریک انصاف کے قائد اور وزیر اعظم عمران خان اور انکے حواری کہتے ہیں کہ یہ اپنی کرپشن چھپانے اور مقدمات کو ختم کرانے یا پھر کوئی این آر او لینے کے لئے اوچھے ہتھکنڈوں پر اترے ہوئے ہیں۔ دوسری وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ وہ فوج کی قیادت پر دبائو بڑھانا چاہتے ہیں کیونکہ انکے خیال میں عمران خان ایک سلیکٹڈ وزیر اعظم ہیں اور اگر کسی طرح فوج انکی حمایت نہ کرے تو وہ نہ صرف ان مقدمات سے بچ نکلیں گے بلکہ حکومت کا تختہ الٹنے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔اگر یہ وجہ ہے تو اسکا تعلق بھی پہلی بات سے جڑتا ہے۔ مسئلہ کرپشن کیسز کا ہے۔جس میں تحریک انصاف سے غلطی یہ ہو رہی ہے کہ وہ ہر سیاسی مخالف کے خلاف اداروں اور عدالتوں کی کاروائی کو اپنے کھاتے میںڈال لیتی ہے اور پھر اپوزیشن کی لعن طعن کا شکار ہوتی ہے۔ سر دست اپوزیشن کی کوشش یہی نظر آتی ہے کہ وہ کسی طور اس پھندے سے نکلے جس نے اسے عدالتی اور نیب کے جال میں جکڑ رکھا ہے۔فوری طور پر اسکی صورت کیونکہ نظر نہیں آ رہی تو حکومت مخالف سیاسی قائدین کا گیدڑ بھبکیاں دینا سمجھ آتا ہے۔سیاست میں اپوزیشن کا کام ہے کہ وہ اپنی سیاسی ساکھ کو نہ صرف بچائے بلکہ اسکو عوام کی نظر میں مزید بہتر بنائے اور اس بات میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ حکومت کو سیاسی میدان میں ناکوں چنے چبوائیں۔ لیکن ملک کو توڑنے، شیخ مجیب بننے کے دعوے اور پاکستان کے اداروں با لخصوص فوج اور عدلیہ کو دھمکانا اور بلیک میل کرنا کسی طور مناسب نہیں۔اس سے اپوزیشن کوعدالتی معاملات اور سیاست میں کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا بلکہ پیپلز پارٹی بالخصوص بلاول جو پاکستان کی سیاست کا مستقبل ہیں، اپنی سیاسی ساکھ کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔