کتاب تحفے میں ملے یا خریدی جائے ، سوال یہ ہے کہ پڑھ لینے کے بعداس کے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟ اپنے گھر کی تجوری نما لائبریری میں سجا کر سانپ کی طرح اس پر پہرہ دینا چاہیے اور کبھی کبھی اس لائبریری کے سامنے بیٹھ کر وی لاگ کر کے اپنے مبینہ علمی مقام کا ابلاغ کرنا چاہیے یا اسے صدقہ جاریہ سمجھ کر آگے بانٹ دینا چاہیے؟ ۔۔۔۔ مشکل سوال ہے؟ چلیں مل کر اس پر غور کرتے ہیں۔ سب سے پہلے اس معاشرے کا جائزہ لیجیے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔یہاں شرح خواندگی شرمناک حد تک کم ہے۔ ہوٹل ہر نکر پر ملیں گے لائبریری کا کہیں وجود نہیں ہے۔سماج کی توند پھیلتی جا رہی ہے دماغ سکڑتا جا رہا ہے۔پانچ ہزار کا جوتا ہمیں سستا لگتا ہے اور ایک ہزار کی کتاب ہمیں مہنگی محسوس ہوتی ہے۔ مطالعے کا ذوق ہی پیدا نہیں ہو سکا۔ کتاب یہاں ایک مخصوص طبقے کی ادا بن کر رہ گئی ہے ، وہ بھی پڑھتا کم ہے اور مرغے کی طرح مطالعے کی بانگیں زیادہ دیتا ہے تا کہ سند رہے ۔معاشی بحران نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ایسے میں ذوق بھی ہو تو کتابیں کہاں سے خریدی جائیں؟ ریاست بھی لاتعلق ہو کر بیٹھ گئی ہے اور سماج بھی ۔ ریاست چاہے تو شہروں میں لائبریریاں ہی نہیں، ہوٹلز ، مالز اور دیگر جگہوں ریڈرز کارنر بھی قائم ہو سکتے ہیں۔لیکن یہ ترجیح ہی نہیں ۔سماج کی فکری گرہ کھل ہی نہیں پا رہی کہ وہ چیرٹی اور فلاح عامہ کی مد میں مطالعے پر بھی کچھ خرچ کر سکے۔ انتخابات میں ووٹ دینے کے لیے معاشرے کی ہتھیلی پر مطالبات کی فہرست رکھی ہوتی ہے لیکن اس فہرست میں لائبریری شامل نہیں ہوتی، منجمد اور علم دشمن معاشرے میں چند فرسودہ تصورات راسخ ہو چکے ہیںجن میں سے ایک یہ ہے کہ کتاب کسی کو پڑھنے کے لیے نہیں دینی۔جو نام کے ساتھ دانشور تخلص کرتے ہیں ان میں رائج اقوال زریں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ شخص احمق ہے جو کسی کو کتاب پڑھنے کے لیے دے اور جو پڑھ کر واپس کر دے وہ اس سے بھی بڑا احمق ہے۔ اس پس منظر کے ساتھ اب اس سوال پر غور کیجیے کہ کتاب تحفے میں ملے یا خریدی جائے ، پڑھ لینے کے بعداس کے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟ عمومی رویہ یہی ہے کہ ذاتی لائبریری میں سجا دیجیے پھر چاہے عشروں وہ وہاں پڑی رہے اور ایک بار بھی کوئی اس کا مطالعہ نہ کر سکے۔ ہر جاڑے میں بیٹھ کر اپنی لائبریری کا سہرا کہہ دیجیے کہ صاحب اتنی کتابیں ہو گئی ہیں۔ ایسے لوگ جب دنیا سے گزر جاتے ہیں تو پھر یہ مناظر بھی دیکھے جاتے ہیں کہ اولاد ردی والے کو بلاتی ہے اور یہ ’’ جھاڑ جھنکار‘‘ بیچ دیتی ہے۔ ملک معراج خالد کو اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ، وہ زبان حال سے بتاتے تھے کہ کتاب ’’ پراپرٹی ‘‘‘ نہیں ہے ، یہ صدقہ جاریہ ہے۔دنیا بھر سے ان کے پاس کتابیں آتی تھیں ، وہ جب دیکھ لیتے تو موضوع کی مناسبت سے کسی موزوں آدمی کو دے دیتے۔واٹس ایپ پر اس روز عابد آفریدی صاحب کا پیغام ملا اور ملک معراج خالد یاد آگئے ۔لکھا تھا: ’’ ہم خیبر ایجنسی میں باڑہ کے مقام پر ایک لائبریری بنانا چاہتے ہیں۔ہم اپنے ان بچوں کو پڑھانا چاہتے تھے جن کے سروں پر ڈرون کا خوف منڈلاتا تھا ۔ہم اس لائبریری کو محض لائبریری نہیں بنائیں گے ہم اسے ایک اکیڈمی بنائیں گے جہاںعلمی ، ادبی اور ثقافتی اور ثقافتی سرگرمیاں ہوا کریں گی۔ آپ سے گذارش ہے کہ وہ کتابیں جن کا مطالعہ آپ کر چکے ہیں ، ہمیں بھیج دیں‘‘۔ میسج پڑھا تو احساس ہوا میں بھی اسی قبیلے کا ایک فرد ہوں جو کتاب کو گھر کے کنویں میں پھینک کر اس کی منڈیر پر پالتی مار کر بیٹھ جاتا ہے کہ کوئی لے نہ جائے۔پیغام پڑھا اور نظر انداز کر دیا۔ خیال آیا کہ ابھی چند ماہ پہلے تو کتابوں کی چھانٹی کی ہے۔ اب باقی تو وہی کتابیں ہیں جن کی مجھے ضرورت ہے یہ تو نہیں دی جا سکتیں۔ چند دن گزرے تو ایک اور خیال آیا کہ سب کتابیں ایک جیسی اہم نہیں ،کچھ بھیجی جا سکتی ہیں۔ کچھ دن مزید بیتے تو سوچا کچھ کتابیں اہم تو ہیں لیکن اتنی بھی نہیں کہ آفریدی صاحب کو نہ بھیجی جا سکیں۔پھر ایک صبح یہ احساس دامن گیر ہو گیا کہ یہ کتابیں میں پڑھ چکا ہوں اور اب ان کا حق دار اب میں نہیں سابق فاٹا کے وہ بچے اور طالب علم ہیں جنگ نے جن کی خوشیاں چھین لیں۔اس سماج میں اگر عابد آفریدی لائبریری بنا رہے ہیں تو کیوں نہ ساری کتب ان کی خدمت میں پیش کر دی جائیں۔ میں جب یہ سطور لکھ رہا ہوں ، میں نے کتابیں پیک کر دی ہیں اور عابد صاحب کو روانہ کر رہا ہوں۔ ان میں میری وہ کتب بھی ہیں جن سے مجھے پیار تھا اور جنہیں میں نے بچوں کو بھی کبھی ہاتھ نہیں لگانے دیا تھا۔ اب جب میں سمجھتا ہوں میں نے اپنے حصے کا کام کر دیا ہے ، میں آپ سب کے سامنے ایک سوال رکھنا چاہتا ہوں۔ کیا آپ’’ فاٹا‘‘ کو ایک کتاب بھیج سکتے ہیں؟اپنے ارد گرد دیکھیے۔ کتابوں کی درجہ بندی کر لیجیے۔ کچھ کتابیں آپ کی ضرورت ہوں گی اور کچھ آپ کے لیے ناگزیر ہوں گی لیکن کچھ ایسی بھی ہوں گی جو سالوں سے آپ کے گھر میں ، کسی کونے میں ، لائبریری میں ، دفتر میں ، بک شیلف میں پڑی ہوں گی اور آپ نے ایک بار پڑھنے کے بعد انہیں دوبارہ کھول کر نہیں دیکھا ہو گا۔ یہ کتابیں آپ عابد آفریدی کو بھیج دیں۔ایڈریس نوٹ کر لیجیے: ’’ عابد آفریدی ۔باڑا روڈ ، سپر مارکیٹ ، الایمان ٹاور ۔نزد قیوم اسٹیڈیم پشاور۔فون نمبر 03189488291۔ آپ پبلشر ہیں ، طالب علم ہیں یا صاحب علم ، یاد رکھیے یہ نیکی کا کام ہے ، صدقہ جاریہ ہے۔ طویل عرصہ میدان جنگ بنے رہنے والے معاشرے کے لیے آپ کا یہ تحفہ اس سماج کی فکری تشکیل میں معاون ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کے لیے اجر عظیم کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ کتابوں کو تجوری میں رکھ کر ان پر پہرہ دینے سے بہتر ہوتا ہے انہیں بانٹ دیا جائے۔نظیر اکبر آبادی نے کہا تھا: سب کتابوں کے کھل گئے معنی جب سے دیکھی نظیر دل کی کتاب ٭٭٭٭٭