لا کے پھینکا ہے کہاں تونے زمانے ہم کو کون آئے گا لٹیروں سے بچانے ہم کو بے لباسی نے عجب حال کیا ہے اپنا اور صرصر چلی آئی ہے جلانے ہم کو شاید آپ یقین نہ کریں میں دل گرفتہ بیٹھا تھا کہ دفتر سے فون آیا کہ کالم نہیں آیا‘ میں چونکا، واللہ میں تو ایک ایسی کیفیت میں تھا کہ کالم لکھنے کی سکت ہی نہیں تھی۔ وجہ یہ بنی کہ بشریٰ حزیں نے ایک وڈیو بھیجی تو وہ میرے حواس تک زخمی کر گئی۔ ہم کچھ بھول بھی جائیں تو حالات کچھ بولنے نہیں دیتے اور حساس لوگ ہمیں یاد دلا کر ہمارے زخم بھی تازہ کردیتے ہیں۔ میرے قارئین کو بھی یاد ہوگا کہ پچھلے سال غالباً نومبر یا دسمبر میں ایک چار سالہ بچہ بارہ کوہ اسلام آباد میں اغوا ہوا تھا۔ اس بدقسمت بچے کی کہانی اس کے باپ کی زبانی سنی تو جیسے وہ سب کچھ مجھ پر بیت گیا۔ اے اللہ تو نے کیسے کیسے درندہ صفت لوگ بیدار کردیئے۔ تیری مشیت تو ہی جانتا ہے۔ کیا خبر کس کو کس کا امتحاں مقصود ہوتا ہے۔ وہ باپ سرتاپا مجھے ایک آنسو لگا جیسے کہ گریہ مجسم ہو جائے جیسے ایک آہ صورت بن جائے۔ اس غمزدہ باپ کی باتیں جگر چھید رہی تھیں کہ اس کے پانچ سالہ بچے کو گلی سے اٹھایا گیا اور چار اوباشوں نے اسے رسیوں میں جکڑ کرزیادتی کی۔ چار روز تک شیطانی کھیل کھیلا۔ خدا کی قسم سوچ کر حواس شل ہو جاتے ہیں اور جسم بے روح محسوس ہونے لگتا ہے۔ پھر اس ننھی جان کو الماری میں بند کردیا۔ پتہ نہیں وہ چاند سا بچہ الماری کے اندر کیسے سر پکٹتا رہا اور کیسے سسکتا رہا۔ پولیس نے اس کی لاش برآمد کرلی۔ مجرموں تک بھی پہنچ گئی اوران کا ڈی این اے بھی میچ ہوگیا۔ چاروں ملزم جیل میں پورے پروٹوکول سے رہ رہے ہیں۔ ان پر فرد جرم تک لاگو نہیں ہو سکی۔ باپ ایک دردناک نفسیاتی کیفیت سے گزر رہا ہے کہ جب انہیں دیکھتا ہے تو اس کا خون ہی نہیں سر بھی کھولتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ فیصلے میں تاخیر کس بات کی۔ اس کے باپ نے دوست کہا کہ اگر اس کے بیٹے کے قاتلوں کو لٹکایا ہوتا تو کراچی کی ننھی فروا بھی اس طرح زیادتی کا نشانہ نہ بنتی اور یہ جو موٹروے پر واقعہ ہوا ہے یہ بھی نہ ہوتا۔ بس کیا کہوں ہم کیسے دردناک کہانیوں میں مر رہے ہیں۔ میر نے کہا تھا: مجھ کو شاعر نہ کہو میر کے صاحب میںنے درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا سوچنے کی بات ہے کہ پورا معاشرہ برباد ہورہا ہے کہ اس سے پہلے ہم بحیثیت فرد برباد ہوئے کہ فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں۔ موج ہے دریا میں اور بیرون دریاکچھ نہیں۔ کہنا میں چاہتا ہوں کہ اس تباہی میں ہم سب برابر کے شریک ہیں کہ سوچتے رہے کہ گرمی ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوںہو۔ اجتماعی شعور جاگتا ہے اور جلد ہی خود غرضی اسے سلا دیتی ہے اور پھر کوئی سانحہ میں ہوتا ہے تو ہم آنکھ کھولتے ہیں اور تب تک شہر کو سیلاب لے جا چکا ہوتا ہے۔ مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا اوپر سے نیچے تک سب مجرم ہیں۔ کبھی کسی کو تو کبھی کسی کو آزماتے ہیں اور خود بیٹھ کر آرام سے کھاتے ہیں۔ وعدے وعید کر کے آنے والے پوری قوم سے خراج لیتے ہیں یا جرمانہ۔ آپ یقین کریں کہ اوپر کی سطح پر یعنی حکومتی سطح پر بھی اسی طرح سے جیسے تھانوں میں اوپر منتھلی پہنچی ہے کہ حکومت کرنے والے قوم کو آئی ایم آیف کے سپرد کر دیتے ہیں اور اپنے محسن کو خوش رکھتے ہیں۔ عوام کی جان ومال کا تحفظ ان کے بخت کے حوالے ہیں یا پھر ڈاکوئوں‘ درندوں‘ چوروں اور قاتلوں کے ہاتھ میں۔ ایسی گندی اور بدبودار صورت حال ہے کہ کوئی ایماندار اور دیانتدار بھی ہو تو اسے اس کرپٹ نظام میں جینا پڑتا ہے اور پھر وہ اپنے پورے تضادات کے ساتھ اپنے ضمیر سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ ہماری بات پر آپ کو انجم رومانی ضرور یاد آئیں گے کہ انہوں نے کہا تھا: اپنے اکھڑ پن پر ہم کو معاف کریں احباب ایسی ہم نے دنیا دیکھی بھول گئے آداب ہم اس خدا کے ماننے والے ہیں جس کے محبوب اور ساری کائنات محورو مرکز حضرت محمد ﷺ نے کہا تھا کہ خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ موٹروے والے معاملہ میں بات فرانس کی بھی آ گئی اور عالمی سطح پر بات جا پہنچی تو سب کی دوڑیں لگ گئیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ آپ اس پانچ سالہ بچے کے بارے میں ابھی تک کیوں کس نتیجہ پر نہیں پہنچے۔ سوشل میڈیا کا رول بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور لگتا ہے کہ اب حکمرانوں کو یہ سوشل میڈیا زیادہ دیر تک برداشت نہیں ہوگا۔ شکر صد شکر کہ لوگوں کی آنکھیں کھل گئی ہیں اور وہ موت کو اپنی طرف خرام کرتے ہوئے محسوس کر رہے ہیں۔ ہم تو کچھ زیادہ ہی بے حس ہو چلے تھے کہ ہم سے کوے بہتر لگتے تھے کہ وہ کم از کم مشکل میں کائیں کائیں تو کرتے ہیں۔ حکمرانوں کو اب سچ سننا پڑے گا: تم ہی اگر نہ سن سکے قصہ غم سنے گا کون کس کی زباں کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے کچھ کچھ احساس مجھے فیصل واوڈا اور محمد علی خان میں نظر یا کہ شاید کچھ اعلیٰ اقدار کا پر تو کہیں موجود ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ گندی سیاست سے اوپر اٹھ کراپنی قوم کو قیامت خیز اس فیز سے نکالیں کہ وہ اپنے بچے بچیوں کے بارے میں انتہائی فکر مند ہیں کہ کب کوئی درندہ انہیں اٹھا لے جائے اور وہ زندگی ہی میں مرگ مسلسل کا شکار ہو جائیں۔ ہماری بہنوں بیٹیوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی آواز اپنے بھائیوں کے ساتھ ملائیں۔ سب مل کر مافیا سے لڑیں۔ پولیس والو! خدا کے لیے آپ عزت کا نشان بن جائو۔ اگر سب مل کر نہیں سوچیں گے تو اجتماعی موت کے حقدار ہوں گے: وقت روکے تو میرے ہاتھوں پر اپنے بجھتے چراغ لا رکھتا