پاکستان میں جوڈیشل ایکٹوازم نیا نہیں ہے مگر چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ پاکستان میں جتنے سوموٹو ایکشن سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے لیے اتنے کسی اور چیف جسٹس نے نہیں لیے۔ تاریخ نے ابھی تک سابق چیف جسٹس کے بارے میں فیصلہ نہیں سنایا مگر افتخار چودھری صاحب کے لیے اس وقت یہ ریمارکس ریکارڈ پر موجود ہیں کہ انہیں میڈیا سے کھیلنے میں بڑا مزا آتا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ہر اخبار میں ان کی لیڈ ہو اور ہر چینل پر ان کا چرچہ ہو۔ مگر موجودہ چیف جسٹس میڈیا میں مقبول ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔ ان کے ہر عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ملک کی تعمیرو ترقی اور تحفظ کے سلسلے میں غیر معمولی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے انداز سے انصاف کو حوصلہ دینا چاہتے ہیں۔ وہ قانون کے ساتھ سیاست کا کھیل برداشت نہیں کرسکتے۔ ان کے لیے چیف جسٹس کی کرسی ایک عہدہ نہیں بلکہ وہ مورچہ ہے جس پر وہ ڈٹ کر جہاد کر رہے ہیں۔ میں اس بات پر بھی حیران ہوں کہ وہ ایسی باتیں کس طرح یاد رکھتے ہیں جو باتیں اتنے بڑے عہدے پر پہنچنے والے آسانی کے ساتھ بھول جاتے ہیں۔ ان کو معلوم تھا کہ سندھ میں آصف زرداری مافیا کے انداز میں حکومت چلا رہے ہیں ۔ سندھ میں زرداری حکومت جس طرح قا نون کی دھجیاں اڑاتی رہی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ حکومتی دور میں آصف زرداری اور ان کے حکمران حلقے نے ایک دن کے لیے بھی سندھ کے سابق آئی جی اے ڈی خواجہ کو سکون سے کام کرنے نہیں دیا۔ حالانکہ اے ڈی خواجہ کوئی انقلابی قسم کے افسر نہیں تھے بلکہ وہ ایک عملیت پسند (Pragmatic) افسر تھے۔ مگر کرپٹ نہیں تھے۔ اس لیے انہوںنے کبھی بھی عزت نفس کا سودا نہیں کیا۔ یہ وہ افسر تھے جن کی سب سے پہلے انور مجید کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی تھی۔ جب انور مجید نے کلفٹن کے ایک بنگلہ پر پولیس چھاپے پر انہیں فون کر کے حکم دیا تھا کہ ’’اس مقدمے کو دبادو‘‘ تب اے ڈی خواجہ نے انہیں آخری جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میں یہ مقدمہ نہیں دباؤں گا‘‘ اس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت اے ڈی خواجہ کے پیچھے پڑ گئی۔پیپلز پارٹی کو ایسی پولیس کی ضرورت ہے جو اس کے حکم پر آنکھیں بند کرکے کام کرے۔ اگر سندھ میں پولیس قانون پر عمل کرے تو پیپلز پارٹی کے لیے حکومت سندھ پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا تاج بن جائے۔ چیف جسٹس کو اس بات کا علم ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی قانون کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ چیف جسٹس اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس نے کتنا مال کمایا ہے ؟ کون کیا کر رہا ہے؟ چیف جسٹس کو یہ بھی معلوم تھا کہ شرجیل میمن اور انور مجید جیسے لوگ بیماری کے بہانے مہنگے ہسپتالوں میں عیاشیاں کر رہے ہیں مگر عدلیہ کو کوئی بھی فیصلہ سنانے کے لیے ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب پورا سسٹم کرپٹ لوگوں کی مٹھی میں ہو تو جان ہتھیلی پر رکھ کر ثبوت کون لائے گا؟ اس وجہ سے یہ کام بھی چیف جسٹس پاکستان کو کرنا پڑا۔ چیف جسٹس کے اکثر فیصلوں سے ایسا لگتا ہے کہ ان کے ذہن میں جو بات جس وقت آتی ہے وہ اسی وقت اس بات پر عمل کرتے ہیں مگر میرا خیال ہے کہ سندھ میں کرپشن اور منی لانڈرنگ کے مجرموں پر پڑا ہوا پردہ چاک کرنے کے لیے انہوں نے پہلے ہی سوچا ہوگا۔ یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ چیف جسٹس اچانک کلفٹن میں موجود ضیاء الدین ہسپتال پہنچ گئے۔ اگر یہ بات چیف صاحب کسی سے شیئر کرتے تو کرپٹ نیٹ ورک بیدار ہوجاتا اور وہ چیف صاحب کے پہنچنے سے پہلے ہی سارے ثبوت مٹا دیتا ۔ چیف جسٹس نے اپنا ارادہ اپنے دل میں رکھا اور جب اچانک ضیاء الدین ہسپتال پہنچے تو حکومت سندھ کا لاڈلہ قیدی رات کی عیاشی کے بعد صبح کو دیر تک سو رہا تھا۔ جب اس کو اٹھایا گیا تب وہ سیاہ رنگ کی شرٹ اور ٹاؤزر پہنے باہر آیا۔ اس وقت اس کے ہاتھ میں وہ چھڑی نہیں تھی جو وہ عدالت میں پیش ہونے کے وقت دکھانے کے لیے لاتے ہیں۔ جب اس نے اپنے سامنے چیف جسٹس کو دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے۔ چیف جسٹس صاحب نے انہیں سرپرائز دیتے ہوئے کہا کہ میں آپ کی مزاج پرسی کرنے آیا ہوں مگر آپ تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں اور کیا یہ سب جیل ہے؟ یہ تو عیاشی والی جگہ ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ کے عملے نے کمرے کی تلاشی لینا شروع کی تو انہیں ڈیپ فریزر میں شراب کی ایک خالی اور دو بھری ہوئی بوتلیں ملیں اور اس کے علاوہ انہیں سگرٹ کے پیکٹ اور وہ منشیات بھی ملیں جس کے بارے میں ابھی تک میڈیا نے کچھ نہیں بتایا۔ میں یہ بات شیئر کرتا چلوں کہ وہ منشیات سگریٹ میں ڈال کر استعمال کی جاتی ہے۔ چیف جسٹس اچھی طرح سے جانتے تھے کہ ان کی پیٹھ دینے سے سارے ثبوت مٹا دیے جائیں گے۔ اس لیے اس سامان کی تصاویر چیف جسٹس نے اپنی موبائل سے بنائیں۔کیا کوئی چیف جسٹس ایسا کرتا ہے؟ کیاپڑی ہے اتنے بڑے عہدے پر فائز شخص کو جو چھوٹے چھوٹے ایشوز کو اٹھائے اور اپنے عہدے کا تقدس بچائے۔ اس کے ساتھ ساتھ عملی طور پر وہ مثال قائم کرے جو مثال آنے والے افراد کے لیے مشعل راہ ہو سکیں۔ اس دن کراچی میں چیف جسٹس صرف پیپلز پارٹی والوں کو پریشان کرنے نہیں آئے تھے۔ شرجیل میمن کو واپس جیل بھجوانے کے بعد چیف جسٹس نے عدالت میں تحریک انصاف کے اس ایم پی اے کی خبر لی جس نے سرعام ایک شہری کو تھپڑ مارے تھے۔ چیف جسٹس عمران شاہ سے مخاطب ہوتے ہوئے بولے کہ کیا آپ عوام کے نمائندے ہیں؟ عوام کے نمائندے ایسے ہوتے ہیں؟ آپ نے ایک شہری پر اس طرح تشدد کیا جس طرح تشدد ایک جانور پر بھی نہیں کیا جاتا۔ چیف جسٹس نے صرف عمران شاہ کو آڑے ہاتھوں نہیں لیا بلکہ جس شخص پر تشدد ہوا تھا ؛ اس سے مخاطب ہوتے ہوئے بھی چیف جسٹس نے کہا کہ ’’آپ نے پیسے لیکر ملزم کو معاف کردیا!!!‘‘ اس کے بعدچیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ’’عزت کی کوئی قیمت نہیں ہوتی‘‘ یہ ساری باتیں ایک سبق تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس دن چیف جسٹس کراچی میں پورے ملک کو قانون، انصاف، سچائی اور وقار کا سبق سکھا رہے تھے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں ایسا چیف جسٹس ملا ہے جو ایسے راستوں پر چل رہا ہے جن راستوں پر ان سے پہلے کوئی نہیں چلا۔ ایسے راستوں پر چلنا آسان نہیں بہت دشوار ہوتا ہے۔ مگر مشکل راستوں کے مسافروں کو ہی تاریخ میں معتبر منزل ملتی ہے۔چیف جسٹس نے اس دن نہ صرف شرجیل میمن کو بے نقاب کرکے واپس جیل بھیج دیا بلکہ انہوں نے عمران شاہ پر تیس لاکھ جرمانہ عائد کرتے ہوئے اسے ڈیم فنڈ میں جمع کرانے کا حکم دیا اور اس دن انہوں نے واٹر کمیشن کا بھی جائزہ لیا اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سندھ کے بہت حساس مسئلے یعنی گمشدہ افراد کے خاندان والوں سے ملاقات بھی کی اور ان کا مسئلہ حل کرنے کا وعدہ بھی کیا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور ان کے حامی حلقوں کو چیف جسٹس کے ان چھاپوں سے تکلیف پہنچی ہے جن چھاپوں کی وجہ سے انتظامیہ الرٹ ہوگئی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کی باگ ڈور اس وقت صاف ہاتھوں میں ہوتی تو وہ قیادت چیف جسٹس کے ان اقدام کی تعریف کرتی مگر اس دن منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت کرانے کے لیے آنے والے آصف زرداری نے ہنستے ہوئے بھی اپنے غصے کا بھرپور اظہار کیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ شرجیل میمن کے کمرے سے برآمد ہونے والے شراب کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ تب انہوں نے نہ تو ناصر شاہ کی طرح یہ موقف اختیار کیا کہ ان بوتلوں میں شہد اور زیتون کا تیل تھا اور نہ انہوں نے اپنے سابق وزیر اور اپنے قریبی ساتھی کے اس عمل پر شرمندگی کا اظہار کیا بلکہ انہوں نے الٹا یہ کہا کہ جس ملک میں چیف جسٹس چھاپے مارے تو کیا کہا جاسکتا ہے؟ آصف زرداری کی بات درست ہے۔ یہ کام چیف جسٹس کے کرنے کے نہیں ہیں مگر کرپٹ سیاستدانوں کی وجہ سے ہمارا سسٹم اس قدر بیٹھ گیا ہے کہ مریض ہونے کا مکر کرنے والے مجرموں کو جیل بجھوانے کا کام چیف جسٹس آف پاکستان کر رہے ہیں۔ اس بات پر چیف جسٹس کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے جب آصف زرداری ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں تو اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے اوپر آنے والے احتساب کے برے دنوں کے بارے میں گھبرائے ہوئے ہیں۔