مکرمی !آپ کا خیال کبھی دوسرے کی چاہت سے ٹکرا جاتا ہے۔ دوسرے کی رائے کبھی آپ کے لیے گوارا نہیں ہوتی۔ کبھی کوئی غلط فہمی دلوں میں بغض کی چنگاریاں بھڑکا دیتی ہے، دوسرے کی طوطا چشمی کبھی معاہدے اور وعدے کی خلاف ورزی کا باعث بنتی ہے۔کبھی دوسرے کی کامیابی ہماری حسد پرستی کا نشانہ بن جاتی ہے۔ یہ سب اسباب ہیں، جو کبھی بھی، کسی بھی طرح جھگڑے اور تنازع کو ہوا دے سکتے ہیں۔ انسان عقل رکھتا ہے اور اپنے فائدے نقصان کو بھی خوب سمجھتا ہے تو آرا کا تصادم عموما ًوجود میں آتا رہتا ہے، معاملات میں بے اعتدالیاں بھی انسانوں سے ہوتی رہتی ہیں۔شیطان ان مواقع سے فائدہ اٹھاتا اور دو مسلمان بھائیوں کو باہم دست و گریباںکر دیتا ہے۔ مالی معاملات اور کاروباری حوالوں سے اس کی نوبت بکثرت پیش آتی ہے۔ اس لیے کہ ان معاہدات اور معاملات میں عموماً سمجھوتہ اور کمپرومائز نہیں کیا جاتا۔ چونکہ تنازع انسانی فطرت کے تقاضے سے ہے، لہذا دین فطرت زندگی کے ہر مرحلے کی طرح "معاملے کی صفائی" کے لیے بھی نہایت قابل عمل حل پیش کرتا ہے۔صلح ، باہمی اختلاف کو دور کرنے کا نہایت بہترین طریقہ، بلکہ یہ اختلافات سے باہر آنے کا باعزت راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، لہذا اپنے دو بھائیوں کے درمیان میل ملاپ کرا دیا کرو۔ یہ نہایت ہی اہم فریضہ ہے۔ (مفتی فصیح اللہ بلدیہ ٹائون کراچی)