میرے محترم قارئین!میں نے آپ سے وعدہ کر رکھا ہے کہ کوئی بھی اعلیٰ اور نایاب چیز میرے علم میں آئی تو میں آپ سے شیئر ضرور کروں گا۔ وہی جو میں نے عمر گزار کر سیکھا کہ آپ کے پاس کچھ کہنے کو نہ ہو تو اچھے لوگوں کی اچھی باتیں لوگوں تک پہنچا دو۔ تو ہوا یوں کہ میں نے احمد جاوید صاحب کو ایک شعر کی تشریح کرتے سنا تو لطف آ گیا۔ انہوں نے ایک شعر کی بہت زیادہ توصیف کی کہ اگر یہ شعر سودا یا کوئی اور بڑا شاعر بھی کہتا تو اسے اپنے ادنیٰ اور منتخب اشعار میں رکھتا۔ مگر بے لطف بات یہ کہ انہوں نے شعر کے خالق کا نام نہیں بتایا۔ ان سے ملوں گا تو پوچھوں گا۔ شعر سچ مچ اعلیٰ اور بلیغ تھا۔ اس پر احمد جاوید کا تبصرہ اللہ اللہ‘ ان کا لہجہ اورزبان کہاں سے لائوں۔ شعر تھا: خط معزولئی اربابِ ستم کھینچ گئے یہ رسن بستہ صلیبوں سے اتارے ہوئے لوگ اچھا شعر یقینا تہہ داری رکھتا ہے اور پہلی نظر میں پورے معانی کے ساتھ نہیں کھلتا۔ اس میں شاعر کہنا چاہتا ہے کہ وہ لوگ جو قربانی دیتے ہیں اور تختہ دار پر جھول جاتے ہیں‘ وہ ارباب ستم کے فیصلے کو نہیں مانتے۔ ان کا صلیب پر بندھے ہوئے ہاتھوں سے چڑھنا اور پھر موت کے بعد اترنا تو یہ ایک ’’خط معزولی‘‘ بنتا ہے کہ انہوں نے اس سزا دینے والے کو معزول کر دیا۔ گویا کہ انہوں نے سرخم کرنے اور فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ یہی قربانی دینے والے لوگ جن کے باعث حق کا سلسلہ جاری ہے وہ باطل کو مایوس کرتے رہیں گے۔ سر داد‘ نہ داد دردست یزید حق کہ بنائے لاالہ اللہ حضرت امام حسین ؓ نے بھی تو اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں نہیں دیا اور ان کا سر نیزے پرچڑھ گیا۔ کیسے جھکتا عدو کے آگے وہ‘ وہ جو کٹ کر بھی سر بلند رہا۔ بس اسی تناظر میں مجھے مذکورہ شعر بہت پسند آیا‘ تب مجھے میر بھی یاد آیا: موسم آیا تو نخل دار پہ میر سر منصور ہی کا بار آیا اصل میں یہ تو عزم و ہمت کی بات ہے۔ یہ ایک رویہ ہے جو بہادری اور عزیمت سے جنم لیتا ہے۔ بھارت کا ایک شاعر یاد آ گیا: ہماری التجا کو آنسوئوں کو ترستا رہ گیا قاتل ہمارا مجھے دفعتاً بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے وہ عظیم امیر اور ان کے ساتھی یاد آئے جنہیں اس جرم میں پھانسی چڑھا دیا گیا کہ وہ متحدہ پاکستان کے حامی تھے اور ایک ہمارے بے حس حکمران جو احتجاج بھی نہ کر سکے اور اسے بنگلہ دیش کا ذاتی مسئلہ کہہ کر مطمئن ہو گئے۔سولی کو چومنے والے تو ہر چیز سے بے نیاز ہوتے ہیں: اتنے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے ناصحو!پندگرو! راہگزر تو دیکھو پھر مجھے مظفر وانی کا خیال آیا جس نے آزادی کشمیر کی تحریک میں بھارت کو ہیبت میں ڈال رکھا تھا۔ یہ کمپرومائز نہیں کرتے۔ مظفر وانی نے تو بے شمار نوجوانوں کو شہادت کا گرویدہ بنا دیا۔ کتنے دل اس کے دل کے ساتھ دھڑکتے تھے۔ اس کا باپ بھی اتنا ہی دلیر اور صابر۔ ایسے لوگ شہر کا فخر ہوتے ہیں: ہیں ابھی شہر میں ناموس پہ مرنے والے جینے والوں کے لیے اتنا سہارا ہی سہی ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ مظفر وانی کا خون رنگ لایا اور آزادی کشمیر کی تحریک آگے سے آگے بڑھتی گئی اور بھارت کے سارے پراپیگنڈا کے باوجود اقوام متحدہ نے نوٹس لیا ہے۔ بھارت بوکھلایا ہوا مذاکرات کی میز پر آنے سے گھبراتا ہے۔ بات شعر سے شروع ہوئی تھی جس میں صلیب پر چڑھنے والے حق کے نمائندہ ہیں اور وہ ظلم کے ضابطے ماننے سے انکاری ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں سقراط کا نام اساسی ہے کہ جس نے سچ کے لیے زہر کا پیالہ پیا اور تب سے سچ کا دوسرا نام زہر پڑ گیا۔ اس کو اس کے شاگردوں نے روتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں پتہ ہے کہ ان کا استاد سچا ہے۔ سقراط نے کہا تھا کہ پھر وہ رو کیوں رہے ہیں‘ انہیں خوش ہونا چاہیے کہ ان کا استاد سچ کے لیے زہر پی رہا ہے۔ ایک شعر سنا تھا: اے مرے دوست ذرا دیکھ میں ہارا تو نہیں میرا سر بھی تو پڑا ہے میری دستار کے ساتھ زندگی کے تجربات و مشاہدات بعض اوقات ناقابل یقین ہوتے ہیں۔ جو لوگ شہادت کے راستے پر نکلتے ہیں‘ بہت عجیب ہوتے ہیں۔ ان کے خواب بھی اور طرح کے ہوتے ہیں۔ شاید وہ آتے ہی باطل کو بے بس کرنے کے لیے ہیں۔ ظلم اپنی بے بسی پر بعض اوقات تلملاتا ہے وہ حق اور سچ کی دلیری اور بے خوفی دیکھ کر اپنے حواس قابو میں نہیں رکھ سکتا۔ مجھے ملا ضعیف یاد آئے جن کو ہماری حکومت نے امریکہ کے حوالے کر دیا تھا۔ اسے ہمارے کرتا دھرتا نے جب پوچھا تھا کہ ضعیف صاحب۔ ان کے لیے اب زندگی اور موت کا مسئلہ۔ ملا ضعیف نے کہا تھا ۔ جناب ! موت سے آگے کی بات کریں۔ موت ہم نے کئی بار دیکھی ہے۔ اصل میں یہی لوگ اصل زندگی گزارتے ہیں کہ موت کی انہیں پروا نہیں ہوتی۔ اسلام دشمن سب سے زیادہ اسی بات پر پریشان ہیں کہ مسلمان موت سے کیوں نہیں ڈرتے۔ جہاد کو وہ اسی لیے سخت ناپسند کرتے ہیں۔ جہان کو ختم کرنے کے لیے انہوں نے غلام احمد قادیانی کا فتنہ پیدا کیا اور بھی کئی حربے استعمال کئے۔ ایک ہندو شاعر نے کہا تھا: زندہ ہو جاتے ہیں جو مرتے ہیں اس کے نام پر اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کر دیا تو میرے معزز و محترم قارئین!آج تو بات ایک شعر کی تھی مگر پھیل گئی۔ ہمیں بھی اپنے اندر یہی جذبہ پیدا کرنا چاہیے کہ اس جہاں میں زندگی مضمر ہے۔ یہ سپرٹ ہماری طاقت ہے۔ مجید امجد کے شعر سے میں کالم ختم کرتا ہوں: سلام ان پر تہہ تیغ بھی جنہوں نے کہا جو تیری مرضی جو تیری رضا جو تُو چاہے