پچھلے دنوں دبئی میںچوٹی زیریں ڈیرہ غازی خان کے ایک محنت کش نوجوان نے خود کشی کی اور خود کشی سے پہلے ایک ویڈیو پیغام وائرل کیا ۔قریباً دس منٹ کے ویڈیو پیغام میں نوجوان نے اپنا نام ، پتہ ، خود کشی اور اس کی وجوہات کے بارے میں بتایا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ خود کشی کرنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے مگر میں کیاکروں کہ میری زندگی جہنم سے پہلے جہنم بنا دی گئی ہے ۔نوجوان نے خود کشی کیوں کی؟ تفصیل بتانے کی بجائے میں اس کا اپنا مکمل بیان من و عن پیش کر رہا ہوں تاکہ پڑھنے والوں کو حالات و واقعات کا مرحوم کی زبانی علم ہو سکے ۔ مرحوم کا بیان پیش کرنے سے پہلے یہ بتا دوں کہ مرحوم کی موت نے وسیب کے ہر درد مند انسان کو رُلا کر رکھ دیا ہے ۔ مرحوم کی میت اس کے اپنے علاقے میں آئی تو کہرام بپا تھا۔ بہت دن گزرنے کے باوجود تعزیت کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ مرحوم کی وفات کے سلسلے میں چوٹی زیریں کے مقامی صحافی منشا فریدی نے اس ایشو کو ہائی لائٹ کیا۔ ملتان کے ادیب و دانشور قاسم سیال نے ایک قومی روزنامے میں بہت اچھا کالم لکھا اور اس سانحے کو پورے وسیب کا سانحہ قرار دیا۔ نوجوان کی موت کے سلسلے میں ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں مقامی ایم این اے سردار جعفر خان لغاری کرسی پر بیٹھا ہے جبکہ مرحوم کا چچا سرور خان نیچے بیٹھ کر تعزیت لے رہا ہے ۔منشا فریدی نے یہ بھی بتایا ہے کہ مرحوم کی وفات کے سلسلے میں ،میں نے اخبارات اور ٹی وی چینلز کو آگاہ کیا اور ان کو مرحوم کا موت سے پہلے ویڈیو پیغام بھیجا ۔ مجھے نجم سیٹھی صاحب ،مبشر لقمان اور رئوف کلاسرا کے فون آئے مگر کسی نے بھی اپنے پروگرام میں اس المناک واقعے کا ذکر نہ کیا ۔میں نے مرحوم کے چچا غلام سرور خان ملغانی سے تعزیت کی تو انہوں نے کہا کہ مجھ میں بتانے کی کچھ زیادہ ہمت نہیں البتہ میں اتنا کہتا ہوں کہ ہمارا بیٹا ہم سے زیادہ سمجھدار تھا ۔ وہ مذہبی حوالے سے بات کرتا تو قرآن و حدیث کے حوالے دیتا اور جب وسیب کا ذکر آتا تو وہ وسیب کے غریبوں کی بات کرتا اور ہم سے اس بنا پر ناراض ہوتا کہ آپ لوگ جاگیرداروں،سرداروں اور تمنداروں سے خوف نہ کھایا کریں کہ رزق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ غلام سرور خان نے یہ بھی بتایا کہ وہ وسیب کی محرومیوں کے ذمہ دار وسیب کے سیاستدانوں کو قرار دیتے تھے ۔اتنے ذہین اور صاحبِ بصیرت نوجوان کی وفات کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ بتانے سے پہلے میں آپ کی خدمت میں مرحوم کا ویڈیو پیغام جسے ہم نزعی بیان بھی کہہ سکتے ہیں ۔ مرحوم کا مکمل بیان یہ ہے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ! میرا نام صدام خان ہے میں چوٹی زیریں کا رہنے والا ہوں، بلوچ قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں نے اپنا ویڈیو اور پکچر سوشل میڈیا پہ اب تک لوڈ نہیں کیا۔ آج میں سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو اَپ لوڈ کر رہا ہوں، کچھ حالات ہیں، کچھ دوست میرا ویڈیو سن کر بور ہوں گے، لیکن میرے رشتے دارں اور کچھ اہم دوستوں کیلئے میرا ویڈیو اہم ہے۔میں چھ سال سے دبئی میں کام کر رہا ہوں میں نے دو سال ایک عربی کے ساتھ کام کیا ہے جو مجھے سات سو درہم تنخواہ دیتا تھا۔ اس کو میں نے اس بنا پر چھوڑا کہ میری تنخواہ کم ہے، سات سو سے گزارہ نہیں ہوتا، میں نے کہا میں دوسری جگہ کام کروں گا، اس کو میں نے سیلری بڑھانے کا کہا وہ نہ مانا۔ میں نے ایک ارباب کے ساتھ کام کرنا شروع کیا وہ مجھے 800 درہم سیلری دیتا تھا۔ ڈیڑھ سال بعد میں نے اس سے کہا میں غریب آدمی ہوں 800 درہم سے گزارہ نہیں ، میری سیلری بڑھائو، اس نے مجھے گالیاں دیں تھپڑ مارے اور کہا کہ کتنی سیلری دوں کیا تجھے ایک ملین سیلری دوں؟ یا ایک کروڑ دوں؟ اس کے بعد مجھے ایک مصری جو ہمارے کام کا فورمین ہے، کے حوالے کیا کہ اس کو تم سمجھائو، وہ ہر آئے روز گالیاں دیتا اور زیادہ غصے میں آکر تھپڑ بھی مارتا دھکے دیتا، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کرتا ، میں نہیں بتا پاتا کہ وہ میری عزت اور عیب کی بات ہے کہ میں بلوچ ہوں، مگر مجبوری ہے حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑا ہے، ان حالات میں بھی نوکری کرتا ہوں محنت کرتا ہوں نماز پڑھتا ہوں اور سخت مشکل حالات میں بھی رب کا شکر ادا کرتا ہوں۔ پاکستان کی طرف دیکھتا ہوں وہاں حالات ایسے ہیں روزگار ملتا نہیں، ویڈیو اپ لوڈ کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ایک ہزار گیارہ سو درہم ہر ماہ اپنے بابا کو بھیجتا ہوں، چار بھائی چھوٹے ہیں ایک بڑا ہے ان کیلئے مزدوری کر رہا ہوں، بابا کو پیسے بھیجتا ہوں بابا کہتا ہے کہ تو پیسے کم بھیجتا ہے، تو پیسے پاس چھپا رہا ہے، ہمیں کم پیسے بھیج رہا ہے، میں بابا کو صفائی دیتا ہوں کہ اگر ایسا کر رہا ہوں تو مجھے موت آجائے، میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں چھوٹے بھائیوں کا حق نہیں مار رہا۔ اگر ایسا حق مار رہا ہوں تو مجھے موت آجائے مگر پھر بھی بابا نہیں مانتا، بھائی میں تنگ آگیا ہوں، دل خون کے آنسو روتا ہے، پردیس کاٹ رہا ہوں، مزدوری کر رہا ہوں، صرف اپنوں کیلئے، میں نے اپنی زندگی جہنم بنائی ہوئی ہے، پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ تو ہمارے لیے کیا کر رہا ہے؟ بابا کہتا ہے یہ جو پیسے بھیج رہا ہے ان سے کیا ہو گا، اتنے پیسے بھیجنے سے بہتر ہے تو نہ بھیج۔ صدام خان اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے مزید کہتا ہے کہ ابھی جہاں میں بیٹھا ہوں آپ دیکھ سکتے ہیں میرے کپڑے کیسے ہیں، ان کپڑوں سے بدبو آتی ہے، میرے کپڑوں میں اتنی بدبو ہے کہ میرے ساتھ جو بیٹھے گا اُٹھ جائے گا، میرا بھائی بھی بیٹھے گا وہ بھی اُٹھ جائے گا، اتنی بدبو ہے میں خود صاف ستھرا انسان ہوں، صفائی پسند ہوں مگر کیا کروں مجبوری ہے، میں صاف کپڑے پہنتا ہوں، خراب ہو جاتے ہیں، لیکن آج میں ویڈیو اَپ لوڈ کر رہا ہوں کہ میں اپنوں کو نہیں دکھا پا رہا کہ کتنی مشکل میں ہوں، جتنی میری سیلری ہے میں اس سے بڑھ کر دے رہا ہوں کہ رات کو اوورٹائم کرتا ہوں، لوگ سکون کر رہے ہوتے ہیں میں کام کرتا ہوں، اوور ٹائم لگاکے رقم اپنے گھر پاکستان بھیجتا ہوں پھر بھی اپنے نہیں مانتے۔ میں زندگی سے پیار کرنے والا انسان ہوں حالات سے لڑنے والا انسان ہوں مگر اپنے حالات سے لڑنے نہیں دیتے، میں زندگی سے پیار کرتا ہوں وہ کہتے تو خود سے پیار کرتا ہے، ہمیں کیا دے رہا ہے؟