وزیر اعظم عمران خان نے فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی جامع ترقی کے لئے 1960ء کی دہائی کی صنعتی پالیسی پر عمل کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں تاجروں صنعتکاروں کی مشاورت سے نئی پالیسی تشکیل دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے 5سالہ پلان کو فالو کر کے ملائشیا اور جنوبی کوریا نے ترقی کی لیکن ہم پیچھے رہ گئے۔ اب ہمیں دوبارہ ملک کو ترقی کے ٹریک پر واپس لانا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اسمال میڈیم انڈسٹری کے لئے اضافی بجلی 50 فیصد کم پر دینے کا جب سے اعلان کیا ہے، ہماری مردہ انڈسٹری میں جان آ چکی ہے۔ دنیا بھر میں کورونا کے باعث کساد بازاری انتہائوں کو چھو رہی ہے لیکن پاکستان میں سیمنٹ،گاڑیوں، موٹر سائیکلوں‘ ٹریکٹر ‘ کھاد‘ ٹیکسٹائل ‘ تعمیراتی اور دیگر صنعتوں میں اتنی تیزی ہے کہ آرڈرز پورے نہیں ہو پا رہے۔ پیک آوور میں زیادہ بلوں سے بچنے کے لئے صنعت کار فیکٹری‘ کارخانہ اور مل کو بند کر دیتے تھے، جس کے باعث ان کے آرڈر ہی پورے نہیں ہو رہے تھے کیونکہ کئی برسوں سے شام 7سے 11بجے تک پیک آوورز میں بھی بجلی کی قیمت 25فیصد بڑھ جاتی تھی۔ وزیر اعظم کے اعلان کے بعد اب صنعتوں کو 24گھنٹے آف پیک آوور بجلی مل رہی ہے جبکہ بی ون‘ بی ٹو اور بی تھری کنکشن کی حامل صنعتوں کو اضافی بجلی پر 30جون تک 50فیصد رعایت دی گئی ہے جبکہ تمام صنعتوں بشمول بی ون‘ بی ٹو‘ بی تھری‘ بی 4اور بی 5کنکشن کو اضافی بجلی پر گزشتہ برس کی نسبت 25فیصد رعایت ملے گی اس کے ثمرات فی الفور ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ حکومتی اعلان کے بعد 14سال بعد فیصل آباد کی ٹیکسٹائل سیکٹر سے وابستہ تمام صنعتیں اپنی مکمل صلاحیت اور استعداد کار کے مطابق کام کر رہی ہیں۔ جس کی بدولت پاکستان کی ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹ دن بدن بڑھ رہی ہیں۔ پچاس ہزار نوکریاں دینے کے باوجود اس وقت ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ایک لاکھ سے زائد مزید مزدوروں کی ضرورت ہے۔ جب دن رات ٹیکسٹائل کا پہیہ چلے گا تو برآمدات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ اس وقت ہم 13ارب روپے کی ٹیکسٹائل برآمد کر رہے ہیں لیکن اگر اسی رفتار سے ہماری ٹیکسٹائل چلتی رہیں تو ہماری برآمدات 20سے پچیس ارب کے درمیان پہنچ جائیں گی ۔ اگر گردو نواح کا جائزہ لیں تو ہمارے سامنے بنگلہ دیش اور چین دو ملک موجود ہیں جنہوں نے ٹیکسٹائل کو اوپر اٹھا کر ملک سے غربت کا خاتمہ کیا ہے۔ چین نے اسی طریقہ کار کیتحت صنعتکاری کی‘ پہلے سرمایہ کاروں نے دولت بڑھائی اور پھر 70کروڑ سے زائد لوگوں کو غربت سے نکالا۔ حکومت پاکستان بھی اسی راستے پر گامزن ہے۔ جس کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیںاور ملکی معیشت ایک عرصے کے بعد درست راستے پر گامزن ہو چکی ہے۔ ان حالات میں اپوزیشن جماعتوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ احتجاج ‘ جلائو گھیرائو اور افراتفری کی سیاست کی بجائے‘ ملکی مفاد کی خاطر سیاست کریں تاکہ ملکی ترقی میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ آئے۔1960ء میں جب پاکستان تیزی سے ترقی کر رہا تھا تب پاکستان کے 5سالہ پلان کو فالو کر کے ملائشیا اور جنوبی کوریا نے ترقی کی لیکن ہم آپسی لڑائی کے باعث پیچھے رہ گئے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کسی بھی پارٹی کی حکومت ترقیاتی کاموں‘ ٹیکسٹائل یا پھر صنعتوں کی بحالی کے لئے کوئی روڈ میپ بناتی ہے، اگر اسی حکومت میں وہ منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ گئے تو اس کی قسمت ہے ،ورنہ آنے والی حکومت نہ صرف اس کے فنڈز روک دے گی بلکہ اس منصوبے میں خواہ مخواہ کے کیڑے نکال کر اسے بند کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ چودھری پرویز الٰہی نے اپنے دور اقتدار میں عوامی فلاح کے جو منصوبے شروع کیے تھے۔ میاں شہباز شریف نے دس برس تک ان منصوبوں کے فنڈز روکے رکھے‘ یہاں تک کہ 1122کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ منصوبہ چونکہ براہ راست عوامی مفاد سے وابستہ تھا،اس لئے وہ اس کو فی الفور بند نہیں کر سکے لیکن اس کی ترقی میں روڑے اٹکائے گئے۔ وزیر آباد کارڈیالوجی سمیت کئی صحت کے منصوبوں کو بھی التوا میں ڈالے رکھا جبکہ ملائشیا اور کوریا جیسے ملکوں میں نہ تو اپوزیشن پارٹیاں ایسی حرکتیں کرتی ہیں نہ اقتدار میں آ کر ملکی مفاد کے منصوبوں کو التوا میں ڈالنے کا وہاں کوئی مکروہ دھندہ ہے۔ اس لئے ان ملکوں نے ہم سے سیکھ کر اس قدر ترقی کی ہے کہ اب ہم ہی ان پر رشک کرتے ہیں۔ پاکستان کو ترقی کے لئے اہم اور مشکل فیصلے کرنا ہونگے اس وقت ہماری انڈسٹری بحال ہو رہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں اور قرضوں کا بوجھ بھی کم ہو رہا ہے، اس لئے حکومت کے تسلسل کو برقرار رکھیں تاکہ ہم ترقی سے ہمکنار ہو سکیں۔ اگر افراتفری اور جلائو گھیرائو کا سلسلہ جاری رہا تو پھر نہ صرف ہمارے منصوبوں پر کام رک جائے گا بلکہ ترقی کی رفتار بھی سست پڑ جائے گی۔ اس لئے معاشی استحکام کے لئے مل کر سب کو کام کرنا چاہیے اگر ہم مل کر مضبوط و مستحکم اور خوشحال پاکستان کے لئے کام کریں گے تو انشاء اللہ ہم بھی چین‘ ملائشیا اور جنوبی کوریا کی طرح ترقی کر سکتے ہیں۔اپوزیشن جماعتوں کو بھی ذاتی عنا کو ملکی مفاد پر قربان کرتے ہوئے ،جلسے جلوسوں سے گریز کرنا چاہیے تاکہ ترقی کا پہیہ رواں رہے۔