وفاقی کابینہ نے نیشنل فنانس کمشن ایوارڈ کے ثمرات نچلی سطح تک پہنچانے کے لئے چاروں صوبوں کے الگ الگ صوبائی فنانس کمشن تشکیل دینے کی منظوری دیدی ہے۔ یہ فیصلہ عوام کو مالیاتی خود مختاری دینے کے حوالے سے بلا شبہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ قبل ازیں 2جولائی 2020ء کو وزیر اعظم عمران خان نے کابینہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ ڈسٹرکٹ کی سطح تک فنڈز کی منصفانہ تقسیم کے لئے صوبائی فنانس کمشن کا اعلان کریں۔ وزیر اعظم کا یہ احساس بجا ہے کہ جب مرکز نیشنل فنانس کمشن ایوارڈ کے تحت صوبوں کو فنڈز فراہم کرتا ہے تو پھر صوبے یہ فنڈز اسی طریقہ کار کے تحت اپنے ڈسٹرکٹس کو کیوں فراہم نہیں کرتے۔ پاکستان کے تمام صوبوں کے لئے الگ الگ صوبائی فنانس کمشن قائم کرنے کا فیصلہ 2001ء میں کیا گیا ۔اس فیصلے کو آئین پاکستان کا حصہ بنایا گیا۔ صوبائی فنانس کمشنوں کو کہا گیا کہ وہ مقامی حکومتوں کے نظام کا ہموار طریقے سے کام کرنا یقینی بنائیں۔ صوبائی فنانس کمشنوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ غربت کی سطح کو کم سے کم کرنے کے لئے کام کریں‘ اسی طرح مختلف اضلاع کے ذرائع آمدن کے مابین جو عدم مساوات موجود ہے اس کے خاتمہ کے لئے کردار ادا کریں۔ جنرل پرویز مشرف کے متعارف کرائے گئے مقامی حکومتوں کے نظام کو جمہوری حکومتوں نے تبدیل کر دیا۔ ہر صوبے نے اپنی پسند کا بلدیاتی نظام تشکیل دیا۔ بعدمیں آنے والی حکمران جماعتوں نے صوبائی خود مختاری کو غلط مفہوم میں عام کیا اور نچلی سطح پر کسمپرسی کے شکار عوام کو نظر انداز کیا۔سب نے اس بات کا خیال رکھا کہ صوبے میں برسر اقتدار جماعت اور اس کی قیادت کی گرفت مضبوط رہے۔ سیاسی تربیت سے عاری سیاستدا ن چاہتا ہے کہ ہر معاملے کے لئے ووٹر اس کے دروازے پر کھڑا رہے۔ پولیس سے داد رسی کا معاملہ ہو تو سیاستدان سے رجوع کیا جائے‘ ملازمت کے حصول یا ٹرانسفر کے لئے سیاسی نمائندوں کی خدمت میں حاضری دی جائے‘ سکول اور ہسپتالوں کی تعمیر اور افتتاح ان کے بنا نہ کیا جائے۔ اسی سوچ نے مرکزی قیادت کو یہ سوچ عطا کی کہ وفاق سے صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کیا جائے۔ ساری دنیا میں ترقی پانے والی جمہوری ریاستوں نے یہی ماڈل اختیار کیا اس لئے اس مطالبے کی مخالفت نہ کی گئی۔ کچھ حلقوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ضمن میں مرکز کے بہت زیادہ اختیارات کو بھی وجہ تنازع بتایاجس سے عوامی سطح پر صوبائی خود مختاری کی مخالفت کم رہی۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ جس طرح صوبوں نے مرکز سے کئی انتظامی اور ٹیکس اختیارات حاصل کئے اسی طرح صوبے کچھ انتظامی و مالی اختیارات اضلاع کو منتقل کرتے۔ ایسا نہ کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مقامی حکومتوں کا نظام صوبوں میں مشکلات کا شکار ہونے لگا۔تمام صوبوں نے بلدیاتی انتخابات کرانے میں حیل و حجت شروع کر دی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت پر گزشتہ بلدیاتی انتخابات کرائے گئے لیکن پنجاب اور سندھ میں ان اداروں کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ کراچی کی ضلعی حکومت کو اگر فنڈز نہ ہونے کی شکایت ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ سندھ حکومت مقامی ضلعی حکومت کو اختیارات دینے پر تیار نہیں۔ بعض سیاسی حلقوںکو خدشہ ہے کہ عوامی مسائل نچلی سطح پر حل ہونا شروع ہو گئے تو شہری ان کو نظرانداز کرنے لگیں گے۔ کسی ملک کی سماجی ترقی کا ڈھانچہ اور جمہوری گورننس بہتر بنانے کے لئے مرکزی ‘ صوبائی اور ضلعی حکومتوں کے درمیان مالیاتی ہم آہنگی اور ایک دوسرے سے تعاون کی فضا ضروری ہے۔ سندھ اسمبلی نے گزشتہ برس متفقہ طور پر صوبائی فنانس کمشن قائم کرنے کی قرار داد منظور کی تھی۔ آئین کی شق 140اے کے تحت صوبائی حکومتیں نچلی سطح پر مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کی پابند ہیں۔ گزشتہ برس ستمبر میں پنجاب حکومت نے بھی فنانس کمشن ایوارڈ کو نوٹیفائی کر دیا تھا۔ کے پی کے کی حکومت نے سال گزشتہ کے دوران صوبے بھر میں یکساں ترقی کے لئے صوبائی فنانس کمشن کو غربت میں کمی ‘ آبادی میں تیز رفتار اضافہ کو روکنے اور تمام علاقوں کو ترقی سے ہمکنار کرنے کے اصولوں پر قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ کے پی کے نے طے کیا کہ صوبے کے 60فیصد وسائل آبادی کی بنیاد پر ضلعی حکومتوں کو فراہم کئے جائیں گے۔20فیصد غربت کے لحاظ سے اور مزید 20فیصد ترقیاتی ڈھانچے کی کمی کی بنیاد پر تقسیم ہوں گے۔ یہ امر دلچسپی کا باعث ہے کہ اکتوبر 2019ء میں بلوچستان نے صوبائی فنانس کمشن قائم کر کے اس کا پہلا اجلاس بلایا۔ بظاہر تمام صوبے صوبائی فنانس کمشن کی تشکیل پر آمادہ ہیں اس کے باوجود یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ یہ امر روز روشن کی طرح عیاںہے کہ ملک کے بہت سے علاقے پسماندگی‘ محرومی اور افلاس کا شکار ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان قانون سازی کا فریضہ انجام دینے کی بجائے ترقیاتی فنڈز کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ صوبائی فنانس کمشن قائم ہونے کے بعد جہاں مدت سے التوا کا شکار ایک آئینی تقاضا پورا ہو گا وہاں حکومتوں اور مختلف سطح کے منتخب نمائندوں کے فرائض میں امتیاز بھی سامنے آئے گا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اپوزیشن کی طرف سے مختلف معاملات پرشدید تنقید کے باوجود ایک ایسا فیصلہ کیاہے جو اختیارات کو عوام کی دہلیز تک پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے۔