فیض کے قلم سے نکلے ہوئے دو مصرعے ہیں ؎ اِن دنوں رسم رہ شہر نگاراں کیا ہے آج کل صورت بربادیٔ یاراں کیا ہے؟ تو عرض یہ ہے کہ شہرِ نگاراں میں ان دنوں دھرنوں، ریلیوں، جلوسوں اور ہڑتالوں کا موسم ہے۔ مولانا فضل الرحمن اپنے قافلے کے ساتھ محو سفر ہیں، 29اکتوبر جس روز یہ کالم لکھا جا رہا ہے مولانا کا قافلہ لاہور پہنچے گا۔ منزل اس قافلے کی، ظاہر ہے شہر اقتدار ہے جہاں پہلے سے ہی حفاظتی بند باندھنے کا کام شروع ہو چکا ہے۔ دھرنا ٹرینڈ ملک میں مقبول کرنے والوں کو اب ایک مخالف دھرنے کا سامنا ہے تو ان کی بوکھلاہٹ بھی دیدنی ہے۔ وہ تمام قاعدے، ضابطے، اصول اور قانون جو انہیں 126دن کا طویل اور عوام کے لیے تکلیف دہ دھرنا دیتے وقت ردی کی ٹوکری دکھائی دیتے تھے اب ان کے لیے کسی صحیفے کی طرح مقدس اور محترم ہیں۔ ہم نے جو دھرنا دیا تھا اس نے جمہوریت کی دیوی کے حسن کو نکھارا تھا۔ وہ دھرنا جمہوریت کے لیے تھا۔ تم جو دھرنا دینے جا رہے ہو وہ جمہوریت کی دیوی کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ ہم نے جو دھرنا دیا اس میں کاروبار بند ہونا، کنٹینر لگا کر عوام الناس کے لیے راستے بند کرنا، رکاوٹیں کھڑی کر کے لوگوں کی زندگی کو تکلیف دہ بنانا عین اصولی اور قانونی تھا اور تم جو سڑکوں پر اپنے قافلے لے کر آئو گے ہم راستوں میں کنٹینر کھڑے کر کے تمہارا راستہ روکیں گے عوام الناس عذاب میں مبتلا ہو گی تو یہ غیر قانونی اور غیر انسانی ہے۔تمہارے لائوڈ سپیکر اور ہزاروں کے کاررواں میں اگر کوئی ایمبولینس پھنس گئی، کوئی مریض ہسپتال جانے سے پہلے دم توڑ گیا اس قتل کا خون تمہارے سر ہو گا اور ایسا اگر کہیں ہمارے دھرنے اور ریلیوں میں ہوا بھی ہو تو وہ سب قربانیاں جمہوریت کے نام پر سنہری حروف میں لکھی جائیں گی۔ ہمیں اقتدار کی بھوک اگر ستائے تو ہم کاروبار، سڑکیں، راستے، پورا پاکستان بند کر سکتے ہیں اور اگر اقتدار کا لالچ تمہیں تڑپائے تو تم اپنے ’’نفس‘‘ پر قابو رکھو تا کہ جمہوریت نقصان سے بچی رہے۔ اعزاز احمد آذر نے تو نہ جانے کس کیفیت میں یہ شعر کہا ہو گا لیکن دیکھئے ہم سیاسی حالات کے ماروں کو آنسو کہاں یاد آیا ہے ؎ وہ ساری خوشیاں جو اس نے چاہیں اٹھا کے جھولی میں اپنے رکھ لیں ہمارے حصے میں عذر آئے، جواز آئے، اصول آئے سو مولانا کے دھرنے اور احتجاج کے جمہوری حق کے راستے میں نہ صرف عذر، اصول اور جواز کے روڑے آرہے ہیں بلکہ کہیں کہیں تو نظریۂ ضرورت کے تحت بے اصولی اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے احتجاج کی اس آواز کو کچلنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ 126دن کا عمرانی دھرنا، 24/7ٹی وی چینلوں پر لائیو دکھایا جاتا تھا۔ اس طرح کہ پورے 126دن، عوام ایک ہیجان میں مبتلا ہے جبکہ مولانا کے دھرنے کی لائیو کوریج تو کجا کوریج پر ہی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔احتجاج کو فرد کا جمہوری حق سمجھنے والوں نے ان کے ساتھیوں کی گرفتاریاں بھی کیں۔ حافظ حمد اللہ کی شہریت کا معاملہ ہو یا مفتی کفایت اللہ کی گرفتاری یا پھر ہفتوں پہلے اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑواں شہروں میں کنٹینروں کو کھڑا کر کے راستے بند کرنے کی حکومتی کوششیں یہ سب حکومت کی کمزوری اور بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتی ہیں۔ دونوں ہی طرز عمل غلط تھے۔ 24گھنٹے 126دن کے دھرنے کو لائیو کور کر کے لوگوں کے اعصاب پر سوار کیے رکھنا بھی غلط تھا کہ اور اب ایک سیاسی احتجاج کو بالکل میڈیا پر کوریج نہ دینا بھی غیر سیاسی اور غیر جمہوری طرزِ عمل ہے۔ جو تھیٹر آف ابسرڈ اس وقت سیاسی منظر نامے پر جاری ہے یا پھر سیاست کے نام پر جو کھیل تماشا یہاں ہوتا رہا ہے اس میں نقصان سراسر میرے جیسے عام لوگوں کا ہی ہوتا ہے۔ راستے ہمارے بند ہوتے ہیں، پروگرام ہمارے کینسل ہوتے ہیں۔ ہیجان میں ہم مبتلا رہتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ویک اینڈ پر ٹیکسلا جانے کا پروگرام تھا۔ صرف اس لیے کینسل کیاکہ پتہ چلا مولانا کی ریلی اور دھرنے سے دو ہفتے پہلے ہی راستوں میں کنٹینر لا کر کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ ہمارے ایک عزیز ہیں جنہیں اپنے بیٹے کے دعوت ولیمہ کی تاریخ ہنگامی بنیادوں پر بدلنا پڑی۔ اس قسم کی ان گنت تکالیف انفرادی سطح پر عوام جھیلتے ہیں جبکہ اجتماعی طور پر دیکھیں تو بھی گھاٹے کا سودا۔ پشاور موڑ جہاں مولانا کو جلسے اور دھرنے کی اجازت ملی ہے وہاں آس پاس کے سکول اور طالب علم پریشان ہیں، ظاہر ہے غیر یقینی صورت حال ہو گی، ہزاروں کا مجمع ہو گا۔ تعلیمی ادارے بند کرنا پڑیں گے۔ آس پاس کے کاروبار کو نقصان ہو گا۔ شہر نگاراں میں صرف مولانا فضل الرحمن کا دھرنا ہی دھمال نہیں ڈال رہا بلکہ اور کئی قسم کے چھوٹے چھوٹے دھرنے ملک کے طول و عرض میں جاری ہیں۔ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے کمیونٹی ٹیچرز کئی روز شہر اقتدار میں دھرنا دے کر بیٹھے رہے اور پھر وہی بات کہ دھرنوں اور احتجاج کے حق میں تقریریں کرنے والوں نے ان قابلِ احترام اساتذہ کے ساتھ جو بدسلوکی کی اس پر بحیثیت قوم ہمیں شرمسار ہونا چاہیے۔ خواتین اساتذہ کو ان کے بچوں سمیت اٹھا کر گرفتار کر لیا گیا۔ ان اساتذہ کے مطالبات سن کر اس ریاست کا شہری ہونے پر شرمندگی ہوتی ہے۔ 23برس پڑھانے کے بعد تنخواہ محض آٹھ ہزار اور وہ بھی آٹھ دس مہینوں سے نہیں ملی۔ مولانا تو خیر اختیار اقتدار کے بڑے کھیلوں کے کھلاڑی ہیں، ان کے مسائل اور مطالبات اور ہیں مگر یہ بیچارے اساتذہ تو جائز ہی سڑکوں پر دھرنا دیئے اپنے حق کے لیے دہائیاں دیتے رہے ہیں۔ 30اور 31اکتوبر کو تاجر بھی اپنے مطالبات کے لیے ہڑتال کا اعلان کر چکے ہیں۔ یوں پورا ملک ایک احتجاج اور ہیجان کی سی صورت حال سے دوچار ہے۔ سیاست کے اس کھیل تماشے کا سکرپٹ لکھنے والے نجانے اس ڈرامے کا ڈراپ سین کس انداز میں کریں گے یہ تو یقینا آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ فی الحال ایک بات جو ہم پورے یقین کے ساتھ بتا سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ جب تک مولانا اپنے دھرنے کے ساتھ سیاسی منظر نامے پر موجود رہیں گے ذمہ داران اور میڈیا کی توجہ عوام کے حقیقی اور بنیادی مسائل سے ہٹی رہے گی۔ اگرچہ عوام اور عوام کے غریبانہ مسائل کو اہل اقتدار و اختیار کی توجہ ویسے بھی کم کم ہی نصیب ہوتی ہے۔ سو دھرنوں، ریلیوں اور ہڑتالوں کے اس سیاسی منظرنامے میں صورت بربادیٔ یاراں کا رخ عوام کے گھروں کی طرف ہے!