گذشتہ سال مئی میں عراق کی سیاحت کے دوران بغدادشریف میں اہل سنت کے مفتی اعظم سے بھی ملاقات ہوئی ، دوران گفتگو انہوں نے ’’صوفی اور سلفی‘‘کے درمیان دوریاں ختم کرنے اورباہمی تعلق کو استوار کرنے پر زور دیا ۔وفد میںشامل پاکستان کے حاضر سروس طبقہ صوفیاء کے امام خواجہ غلام قطب الدین فریدی اورہمارے دیگرسکالر دوست،مفتی اعظم کی اس گفتگو سے زیادہ مطمئن نظرنہ آئے ۔ لیکن امرِ واقعہ یہی ہے کہ اس وقت دنیا میںایسا’’ صوفی اسلام‘‘ لائق تحسین اورقابل پذیرائی ہے ، جس میں راسخ الاعتقادی اور خوش عقیدگی کے ساتھ رواداری ، انسان دوستی ،اخوت ،محبت ،مساوات ،عدم برداشت اور فلاحی معاشرے کی تشکیل کے عناصر ترکیبی دستیاب ہوں ۔عرفِ عام میں ’’سلفی‘‘ سے مراد اہل حدیث یا وہابی ہیں،جو اپنی نسبت سلف الصالحین کی طرف کرتے ،امام ابن تیمیہ ؒاور ابن قیم جوزیؒ کے مشرب کے امین، دینی اعتبار سے سعودی عرب کے زیادہ قریب،’’ صوفیانہ مشرب‘‘ اور ائمہ فقہ سے قدرے دور …جبکہ ’’صوفی ‘‘ کا یکے ازمادہ اشتقاق’’صفہ‘‘ یعنی یہ ’’صوفیا‘‘ان اصحاب صفہ سے نسبت کے سبب ’’صوفی‘‘کہلاتے ہیں ،جو عہد رسالت مآب ﷺمیں علائق دنیا سے کنارہ کش ہو کر ’’صُفہ‘میں مقیم رہتے۔ اس تمہیدی گفتگو کا شانِ نزول امام کعبہ الشیخ عبداللہ عواد الجہنی کا حالیہ دورئہ پاکستان ہے ،جس میں ان کے ہمراہ پاکستان میں سعودی سفیر الشیخ نواف بن سعید المالکی بھی اسلام آباد سے لاہور تشریف فر ما ہوئے ۔ لاہور میں ان کا استقبال صوبائی وزیر اوقاف پیر سیّد سعید الحسن شاہ ،جوکہ از خود روحانی خانوادے کے چشم وچراغ اور صوفی مشرب کے حامل ہیں ، نے کیا ۔ لاہور آمد سے دو روز قبل اسلام آبا دمیں منعقدہ ایک کانفرنس میں سفیر محترم الشیخ المالکی سے اپنی ابتدائی اور تعارفی ملاقات کے احوال بتاتے ہوئے وزیر موصوف نے بتایا کہ ان کے استفسار ...... ’’اَنْتَ مالکی‘‘ یعنی کیا آپ امام مالک کے پیروکار ہیں ؟ سفیر محترم نے بصد ومحبت فرمایا ’’نَعَمْ‘‘ یعنی میں مالکی ہوں ۔ہمارے وزیر صاحب نے اس پر، از راہ ِمحبت ان کے ہاتھ کو بوسہ دیا ---جوہماری خانقاہوں میں مہمانوں سے محبت اورا ن کے اعزاز واکرام کوباور کر انے کا ایک انداز ہے ۔ہمارے وزیر مہمانداری محترم وزیر باتدبیرنے اس امر کو بھی لائق پذیرائی جانا کہ امام مالکؒ،جو عالم مدینہ تھے،کے پیروکار، وہاں کے قومی دھارے میں ہو سکتے ہیں ،تو امام ابو حنیفہ ؒ کے ماننے والے کیوں نہیں ، جبکہ وہاں پر جنازہ ،تراویح وغیرہ امام احمد بن حنبل ؒ کے طریقہ کے مطابق رائج ہے ،بہرحال۔۔۔۔ معاملہ کا’’ کلائمیکس ‘‘یہ ہے کہ امام کعبہ الشیخ عبداللہ بن عواد الجہنی ،بدھ ،17اپریل2019ء کو جب لاہور سے رخصت ہونے لگے ،تو انہوں نے بوقت رخصت پیر سیّد سعید الحسن شاہ کے ہاتھ کو بوسہ دیا، اورانہیں سعودی عرب کے دورہ کی بطور خاص دعوت بھی دی۔ گذشتہ منگل کا دن امام کعبہ کا لاہو رمیں مصروف ترین دن تھا، جس میں گورنر ہائوس ،مرکز اہل حدیث ،بادشاہی مسجد اور جامعہ اشرفیہ ۔۔۔ اور پھر رات کا عشائیہ …خصوصی طور پر قابل ذکر ہے۔اس سارے عرصے میں زیادہ وقت ہمارے وزیر پیر صاحب اور ہمارے مہمان معظم ایک دوسرے کی رفاقت میں رہے ، اور شاید کسی شیخ طریقت کے ساتھ اتنا وقت گزارنے کا ، امام صاحب کے لیے بھی یہ پہلا موقع ہو، لیکن اس پر فریقین نے ایک دوسرے پر جو اثرات چھوڑے ،وہ بہت مثبت اور محبت بھرے تھے۔ اما م کعبہ نے اپنے دورے کے دوران پوری اُمّت کے ساتھ خیر خواہی کے جذبے کو پروان چڑھانے کی کوشش کی اور اپنے مختلف خطابات میں اس امر کا بطور خاص اعادہ کیا کہ اسلام میں شدت پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ،اسلام…رواداری ،مساوات ، انسان دوستی اور امن کا علمبردار ہے ۔ علماء کرام آگے بڑھیں اور معاشرے سے نفرتوں کو ختم کرتے ہوئے اخوت اور بھائی چارے کی فضاء کو مضبوط اور مستحکم کریں ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان یک جان اوردو قالب ہیں ۔سعودی عرب اُمت مسلمہ کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا اور اس کو خصوصی اہمیت کا حامل سمجھتا ہے، خطے میں امن واستحکام کے حوالے سے پاکستان کا گراں قدر کردار لائق تحسین ہے۔ امام کعبہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ عواد الجہنی امام حرمِ کعبہ سے پہلے، امام حرمِ نبوی مسجد قبلتین اور مسجد قبا کی امامت کے اعزاز سے بھی بہر ہ مند رہے ۔16 اپریل 2019ء (منگل) مغرب کی نماز آپ کی اقتدا میں ،تاریخی بادشاہی مسجد میں پڑھنے کی سعادت میسر آئی ، امام صاحب کا پُر کیف لہجہ اور قرآن پاک کی آیات کا معنوی حُسن اور لفظی ترنم …بادشاہی مسجد کا ماحول صحنِ کعبہ سے متصف ہوتا محسوس ہوا۔ آپ پیدائشی طور پر مدنی ہیں ،اورآپ کی ولادت 13جنوری1976کو مدینہ منورہ میں ہوئی اور مسجد نبوی کے مشہور امام علی الحذیفی کے شاگرد ہیں۔ آپ ابتدائی طور پر مسجد الحرام میں اما م صلاۃ التراویح مقرر ہوئے اور پھر مستقل امام کعبہ کے منصب پر فائز ہوگئے ۔۔آپ نے جامعہ اُم القریٰ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ پاکستان میں امام کعبہ کی آمد کی تاریخ اگرچہ کافی پرانی ہے ،تاہم ستر اوراَسّی کی دہائی میںالشیخ عبد العزیز بن باز اور الشیخ محمد بن عبداللہ السبّیل ،جوکہ رابطہ عالم اسلامی کے بھی ذمہ داررہے ،کی پاکستان آمد اور پھر اسلام آباد میں فیصل مسجد اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اور لائل پور کے نام کو تبدیل کرکے فیصل آباد رکھنے کے معرکے…اسی دور کی یاد گار ہیں ۔ اس دور میں لاہور کے اندر اہل حدیث لیڈر شپ میں میاں فضل حق اور پھر بعد میں ان کے بیٹے نمایاں تھے ،دوسری طرف علامہ احسان الٰہی ظہیر اوران کے قبیلے کی دیگر شخصیات … معتبر تھیں ۔اہل سنت کی معروف اور معتبر شخصیت مفتی محمدحسین نعیمیؒ کی امام کعبہ سے ملاقات اور جامعہ نعیمیہ کے لیے مدعو کیا جانا بھی تاریخ سے ثابت ہے ،مگر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ۔بعض اوقات ہم اپنی علاقائی روایت کے سبب، اپنے مہمانوں کے حوالے سے بڑے Possisiveہوجاتے ہیں ، اوران کے’’ فیضا ن‘‘ کو اپنے تک محدو د رکھنے کے خواہاں رہتے ہیں ۔ 2007ء میں چوہدری پرویز الٰہی ،جوکہ اس وقت وزیرا علیٰ پنجاب تھے ،کی خصوصی دعوت پر فضیلۃ الشیخ الدکتور عبدالرحمن اَلسُّدِیْس پاکستان تشریف لائے ، تو لوگوں کی عقیدت ومحبت دیدنی تھی ، بادشاہی مسجد کے صحن کو طویل عرصے کے بعد لبریز دیکھا ،بلکہ اقبال پارک تک جم غفیر تھا۔31مئی 2007ء امام صاحب نے 7کلب میں پنجاب قرآن بورڈکے اجلاس کی صدارت بھی کی، جس کو بطور سیکرٹری قرآن بورڈ ،کالم نگار نے Conductکروایا ۔ ان کے تاریخی الفاظ میرے ذہن میں محفوظ ہیں،جس میں انہوں نے صرف قرآن نہیں بلکہ قرآن وسنت پر مشتمل عظیم الشان ادارے کے قیام کی ہدایت فرمائی، جو بحمد اللہ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف قرآن &سیرت سٹڈیز کی شکل میں قانون سازی کے بعد ،فعال ہونے کے لیے پر تول رہا ہے ۔الشیخ السدیس صاحب کا پہلا عشائیہ چوہدری ظہور الٰہی روڈ لاہور میں چوہدری صاحبان کے ہاں تھا ، چوہدری ظہور الٰہی روڈ اور جامعہ اشرفیہ کے درمیان واقع ’’پُل ‘‘چوہدری صاحبان کی معیت میں امام کعبہ الشیخ السدیس طے فرما گئے ،ا وریوں اس خطّے کے احناف کے ساتھ ، یہ رابطہ ایک سنگِ میل کی حیثیت اختیار کر گیا ، چوہدری صاحبان وسیع المشرب اور کھلے دل ودماغ کے لوگ ہیں ،چوہدری پرویز الٰہی امام کعبہ کو داتاؒ دربار بھی لیجانا چاہتے تھے ، لیکن ’’بوجوہ ‘‘ ایسا نہ ہوسکا۔ لیکن بہر حال اب حالات جس طرف بڑھ رہے ہیں ،اس سے لگتا ہے کہ یہ دوریاں اور بُعد بھی جلد ختم ہو جائے گا۔