وزیر اعظم عمران خان نے نیب قوانین کو موثر، شکایات سے پاک بنانے اور انتخابی اصلاحات کے حوالے سے 10رکنی کمیٹی تشکیل دیدی ہے۔ یہی کمیٹی قومی معاملات پر اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا فریضہ انجام دے گی‘ کمیٹی روزانہ کی بنیاد پر وزیر اعظم سے ملاقات کرے گی اور اپوزیشن کے ساتھ بات چیت سے متعلق امور پر آگاہ کرے گی۔ سیاسی کمیٹی معیشت ‘روزگار ‘ریلیف پیکیجزاور سبسڈیز کے متعلق تجاویز دینے کی ذمہ داری ادا کرے گی۔ وزیر اعظم کو جن انتظامی اور سیاسی مشکلات کا سامنا ہے ان کی وجہ بطور جماعت تحریک انصاف کا خود کو ایک جزیرے کی شکل میں دوسری جماعتوں سے الگ تھلگ رکھنا اور حکومت میں آ کر پی ٹی آئی کے وزراء کا وزیر اعظم کا بوجھ بٹانے میں عدم دلچسپی ہے۔ مہنگائی‘ سیاسی رابطے اور اصلاحات جیسے اہم ترین معاملات کی ذمہ داری کمیٹی کے سپرد کرنے سے ممکن ہے اس کی کارکردگی سست رفتاری کا شکار ہو جائے یا کام کی زیادتی کے باعث مسائل کا بروقت حل تلاش نہ کیا جا سکے۔ اس لئے بہتر ہو کہ ہر ہدف کے لئے الگ کمیٹی بنا دی جائے تاکہ ذمہ داری میں ابہام اور دقت کا سامنا نہ ہو۔ اپوزیشن جماعتوں کی شرط رہی ہے کہ حکومت احتساب کے عمل اور نیب کے طریقہ کار کو سیاسی انتقام کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور اراکین کابینہ اس سلسلے میں کئی بار وضاحت کر چکے ہیں کہ نیب اور عدالتی نظام پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں۔ادارے آزادانہ کام کر رہے ہیں۔ دسمبر 2019ء میں حکومت نے نیب قوانین میں ترمیم کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا۔ مناسب ہوتا کہ اس موقع پر حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت ہوتی لیکن اپوزیشن نے اسمبلی میں ہنگامہ کئے رکھا اور حکومت نے اس صورتحال کو معمول پر لانے میں دلچسپی ظاہر نہ کی۔ بعدازاں کہا گیا کہ اپوزیشن اپنے رہنمائوں کے خلاف رعائتیں چاہتی ہے‘ ایسا ہی رویہ ایف اے ٹی ایف کی سفارشات پر منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ روکنے کے لئے پیش کردہ مسودہ بل کے موقع پر سامنے آیا۔ بہرحال اس ہنگامہ آرائی کے باعث صدارتی آرڈی ننس نافذ کر دیا گیا‘ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ نیب کی کارروائیاں معاشی بحالی اور انتظامی بہتری کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہو رہی ہیں۔ نیب ترمیمی آرڈی ننس کے ذریعے شق 9کی ذیلی شق 6اے میں ترمیم سے قرار دیا گیا ہے کہ کسی بھی عوامی عہدہ رکھنے والے شخص کے خلاف اس وقت تک کوئی کارروائی نہیں ہو سکے گی جب تک کہ یہ ثابت نہ ہو جائے کہ اس نے اختیارات کا غلط استعمال کیا یا مالی فائدہ اٹھایا۔ نیب حکام نے واضح کیا تھا کہ اس ترمیم کا فائدہ ممکنہ طور پر نارووال سپورٹس کمپلیکس کیس میں احسن اقبال ‘آشیانہ ہائوسنگ سکیم کیس میں فواد حسن فواد اور شہباز شریف‘ این ایل جی کیس میں شاہد خاقان عباسی کو پہنچ سکتا ہے۔ اپوزیشن کو یہ گلہ رہا ہے کہ حکومت جب بھی قانون سازی میں تعاون طلب کرتی ہے اس میں نیت نیتی شامل نہیں ہوتی۔ احتساب کے معاملات کو شفاف اور قابل بھروسہ بنانے کے لئے حکومت اور اپوزیشن کسی مسودے پر متفق ہو جاتے ہیں تو سیاست میں گھلی کشیدگی اور بدزبانی کا عنصر بھی دور ہونے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔انتخابی نظام عشروں سے تنازعات کا شکار چلا آ رہا ہے‘ انتخابی فہرستوں کی تیاری‘ پولنگ کا عمل‘ الیکشن کمشن کا کردار اور شکایات کے فوری ازالے کے سلسلے میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون دکھائی دیتا ہے۔ سب سے پہلے انتخابی عمل کو شفاف بنانے کی تحریک عمران خان نے شروع کی۔ تحریک انصاف نے 2013ء کے انتخابی نتائج کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ اگرچہ ان نتائج کے بارے میں پیپلز پارٹی‘ جمعیت علماء اسلام اور دوسری جماعتوں کی رائے بھی یہی تھی لیکن کوئی جماعت اس سلسلے میں آگے بڑھ کر کردار ادا کرنے کو آمادہ نہ ہوئی۔ پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے طویل دھرنے کو سانحہ اے پی ایس کے باعث ختم کرنا پڑا۔ اس موقع پر حکمران مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں نے اصلاحات کے نام پر جو سفارشات مرتب کیں ان کا فائدہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ اگرچہ تحریک انصاف کو اس مشاورت میں شامل کیا گیا لیکن حتمی مسودے کی صورت وہی رکھی گئی جو مسلم لیگ ن چاہتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 2018ء کے انتخابات جب مسلم لیگ ن کے اپنے الیکشن ایکٹ کے مطابق ہوئے تو خود اسے شکایات پیدا ہوئیں۔انتخابی عمل کا غیر شفاف ہونا صرف عام انتخابات تک محدود نہیں حالیہ سینٹ انتخابات اور پھر چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے دوران ہارس ٹریڈنگ‘ دبائو اور غیر جمہوری طریقہ کار اختیار کرنے کے الزامات ظاہر کرتے ہیں کہ نظام کو شفاف بنانے کے لئے اصلاحات کا عمل شروع نہ ہوا تو جمہوریت ڈوب سکتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی اب تک حکمت عملی تصادم پر مبنی رہی ہے۔ اس تصادم نے کشیدگی‘ محاذ آرائی اور بسا اوقات ہاتھا پائی کو رواج دیا ہے۔ عوام کی زندگی آسان ہو‘ سرکاری دفاتر میں کام ہو‘ انتخابی عمل ایسا شفاف ہو کہ ہر شخص اس پر بھروسہ کرے‘ احتساب کا عمل محض حکومت کی پسند ناپسند پر نہ ہو بلکہ قانون سب کے لئے برابر اور قانون کی ہر حال میں بالادستی کا خیال رکھا جائے۔ وزیر اعظم نے اپوزیشن کو مذاکرات کی پیشکش کی جس پر اپوزیشن نے مثبت ردعمل ظاہر کیا۔ سیاسی کمیٹی میں حکومت اور تحریک انصاف کے پارٹی چیف آرگنائزر کی نمائندگی نے اس کی حیثیت میں اضافہ کر دیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ کمیٹی اپنے مینڈیٹ کے مطابق درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔