وزیر اعظم عمران خان نے ننکانہ صاحب میں بابا گورونانک یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں اپوزیشن پر واضح کیا ہے کہ وہ مارچ کرے یا بلیک میلنگ کا کوئی دوسرا طریقہ اپنائے وہ جب تک زندہ ہیں انہیں این آر او نہیں دیں گے۔ وزیر اعظم کے بیان کے ساتھ سٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ بھی شائع ہوئی ہے۔ سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ رواں برس شرح نمو ملکی تاریخ کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔ مہنگائی کی شرح چار برسوں کے بعد اپنے ہدف سے بڑھی ہے۔ اس سال مہنگائی 12فیصد تک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے، سٹیٹ بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں برس برآمدات 25.9ارب ڈالر تک رہنے کی توقع ہے، ٹیکس اہداف کا حصول ایک چیلنج ہو گا جبکہ اخراجات کم کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی معاشی کمزوریوں کی وجہ تلاش کرنے والے ہمیشہ حکومتی پالیسیوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ر ہے ہیں۔ ایسا کہنا اس لیے آسان ہوتا ہے کہ پانچ سال بعد حکومت تبدیل ہو جاتی ہے۔ بہت سے منصوبے اور فیصلے اس عرصے میں شروع ہو چکے ہوتے ہیں اور اکثر ادھورے رہتے ہیں۔ معیشت جیسے بڑے مسئلے کو صرف ایک پہلو سے ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔ پارلیمنٹ کے کام کرنے کا طریقہ کار، افسر شاہی کی مستعدی، معاشی ترقی کے عمل میں عوام کی دلچسپی اور ان سب کا کسی ایک پالیسی کے تسلسل پر اتفاق ضروری ہے۔ ایک ایک کر کے تمام پہلوئوں کا تجزیہ کریں تو صورت حال کچھ حوصلہ افزا نہیں نظر آتی۔ پورا معاشرہ اصلاح احوال کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرا کر ہر عمل سے لا تعلق ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھانے والے مسلسل بتا رہے ہیں کہ عدالتوں اور اداروں کا وہ احتسابی عمل کوئی حیثیت نہیں رکھتا جو قانون کے ڈھانچے نے وضع کیا ہے۔ سیاستدان دھڑلے سے کہہ دیتا ہے کہ احتساب کا اختیار صرف عوام اور عوامی عدالت کو ہے۔ دوسری طرف یہی عدالت کا درجہ رکھنے والے محترم عوام جب اپنے مسائل حل نہ ہونے کا رونا روتے ہیں تو اپوزیشن حکومت کی پالیسیوں کو مورد الزام ٹھہراتی ہے۔ حکومت سابق حکومت کے سر سارا ملبہ ڈال دیتی ہے۔ یہ عمل ایک دائرے میں چل رہا ہے اس لیے پاکستانی قوم کا سفر ختم ہونے کو نہیں آتا۔ قوم جہاں سے چلتی ہے کچھ برسوں کے بعد وہیں آ کھڑی ہوتی ہے۔ دھرنے سے چل کر دھرنے تک پہنچنے والی قوم کس طرح معاشی مسائل سے نکلے؟ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ عوام کو اپنی طاقت بڑھانے کے لیے جماعتوں کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ چند ایک کو گاڑی چومنے، نعرے لگانے اور کپڑے پھاڑنے پر پارٹی قیادت توجہ عطا کرتی ہے۔ ایک آدھ کو نواز دیا جاتا ہے اور باقی اس طرح کی نظر عنایت کی خاطر اس سے بھی بڑھ کر گاڑی چومتے، اونچے نعرے لگاتے اور زیادہ کپڑے پھاڑ کر وفاداری کا ثبوت دیتے ہیں۔ عوام کو کبھی بتایا نہیں جاتا کہ چین سے سی پیک کے ضمن میں جو معاہدے ہوئے ہیں ان کی تفصیلات کیا ہیں، عوام کو آگاہ نہیں کیا جاتا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کن شرائط پر امریکہ کا اتحادی بنا، عوام کو تو یہ بھی نہیں معلوم ہو پاتا کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دوسرے مالیاتی اداروں سے جو قرض لیے جاتے ہیں ان کا استعمال کہاں اور کیوں کیا گیا۔ ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت عوام کو ایسے ہجوم میں بدل دیا گیا جو چند خاندانوں کے چنیدہ افراد کو کندھوں پر اٹھا کر اقتدار کے سنگھاسن تک لاتے ہیں۔ کسی کے پاس وہ سنجیدگی اور عزم دکھائی نہیں دیتا کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کی بات کرے، شرح نمو کو بڑھانے میں دلچسپی لے یا قرضوں کی ادائیگی اور سرمایہ کاری میں اضافہ کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کر سکے۔تاجر پیشہ طبقہ کاروبار چھوڑ کر مفاد پرستی پر مبنی سیاست کا حصہ بن چکا ہے۔ ریاست کو چلانے کے لیے وسائل درکار ہوتے ہیں۔ تنخواہ دار طبقہ اپنی آمدن سے کچھ حصہ سرکار کو دیتا ہے تا کہ ہسپتالوں میں لوگوں کو علاج معالجے کی سہولیات ملتی رہیں، بچوں کو تعلیم فراہم کی جا سکے، بھوکوں کے لیے خوراک کا انتظام ہو سکے۔ لیکن کاروباری طبقہ قانون اور ضابطے کے تحت ٹیکس ادائیگی کو ریاست کا جبر قرار دیتا ہے، جب سے جمعیت علمائے اسلام نے حکومت کے خلاف مارچ کا اعلان کیا ہے کچھ تاجر تنظیمیں بھی اس کھیل کا حصہ بن رہی ہیں۔ حکومت نے جنگلات کی غیر قانونی کٹائی اور لکڑی چوری میں ملوث مافیا کے خلاف سخت کارروائی کی اب یہی لوگ ہڑتال پر بضد ہیں، موبائل فون سمگل ہوتے تھے، اربوں روپے کے فون آتے لیکن سرکار کے خزانے میں ٹیکس جمع نہ کرایا جاتا۔ الیکٹرانکس کی اشیاء درآمد کرنے والوں نے بھی کسٹمز اور ایف بی آر اہلکاروں کے ساتھ معاملات طے کر رکھے ہیں۔ حکومت نے ان کے کاروبار کو ضابطے کا پابند بنانے کی کوشش کی تو یہ لوگ ہڑتال پر آمادہ ہیں۔ عمران خان کو پارلیمنٹ میں اس طرح کا بڑا مینڈیٹ حاصل نہیں جیسا کہ مسلم لیگ ن کی حکومتوں کو حاصل رہا ہے لیکن قومی مسائل کو حل کرنے کے لیے ان کی کوششیں پچھلی حکومتوں سے کہیں زیادہ دکھائی دیتی ہیں۔ وزیر اعظم اگر یہ سمجھتے ہیں کہ مشکوک اور مبہم چارٹر آف ڈیمانڈ کے ساتھ مارچ کرنے والے مولانا فضل الرحمن اور ان کی حمایت کرنے والی دیگر اپوزیشن جماعتیں صرف کچھ سیاسی شخصیات کی رہائی کا کھیل کھیل رہی ہیں تو اس بات پر یقین کرنے کی سو وجوہات شمار کی جا سکتی ہیں۔ اس لیے جب وہ کہتے ہیں کہ این آر او نہیں دوں گاتو معلوم ہوتا ہے کہ ان سے اس سلسلے میں رابطہ کی براہ راست یا بالواسطہ کوشش کی جا رہی ہے۔ تاریخ کا یہ اہم موڑ ہے جہاں پاکستانی قوم کو سوچنا ہے کہ وہ غیر ضروری احتجاج، ہڑتال اور لانگ مارچوں سے دل بہلانا چاہتی ہے یا پھر اصلاح احوال کے عمل میں رکاوٹ سیاسی و غیر سیاسی گروہوں کی حوصلہ شکنی کے لیے کوئی عملی کردار ادا کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔