رمل وجفر کے وفاقی وزیر عرف شاہی نجومی نے ایک بار پھر ’’غیب‘‘ کی خبر دی ہے مگر ادھوری۔ فرمایا ہے کہ نواز شریف کی ضد معاملات طے نہیں ہونے دے رہی۔ ضد کیا ہے یہ نہیں بتایا‘ معاملات طے پانے سے کیا مراد ہے‘ یہ بھی نہیں بتایا۔ ویسے بہت سے لوگ اسے ڈٹ جانے کا نام بھی دیتے ہیں جسے شاہی نجومی ضد کہہ رہے ہیں۔ سنا ہے کہ ’’ضد‘‘ اس بات پر ہے کہ 25جولائی کی شب جو ’’واردات‘‘ کی گئی تھی اس پر معذرت کی جائے۔ بظاہر ضد بے جاہے کہ معذرت کرنے سے کیا ہو گا؟ کیا ’’مال مسروقہ ‘‘ برآمد ہو جائے گا۔35کا ہندسہ 110میں بدل دیا گیا۔ بس اتنی سی واردات تھی۔ شاہی نجومی نے درمیانی راستے کا ’’مدّا‘‘ شہباز شریف پر ڈال دیا ہے حالانکہ پیغام رساں کوئی اور ہیں۔ پیغام بھجوانے والے بھی کوئی اور۔پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ جو ہوا مٹی پائو باہر آ جائو اور ادھر سے ضد ہے کہ نہیں اب مقدمہ چلنے دو۔ ٭٭٭٭٭ ’’ضد‘‘ کا ایک نکتہ کردار کشی کی مہم کے حوالے سے ہے۔ کیا مطالبہ ہے اسے چھوڑیے، اس پر غور کیجیے کہ کیا کبھی تاریخ عالم میں اس سے بڑی تو کیا‘ اس جیسی اور اس جتنی کردار کشی کی کوئی اورمہم بھی کبھی چلی؟۔ نہیں۔ اتنی بڑی مہم جس پر ریاست کے سارے وسائل جھونک دیے گئے کوئی نتیجہ لا سکی؟ نہیں اگر لا سکتی تو 25جولائی کی شام واردات کی ضرورت ہی کیوں پڑتی۔ ’’سائنس ‘‘ کہتی ہے کہ اتنی بڑی مہم کے بعد ’’مجرم اعظم‘‘ کی مقبولیت صفر ہو جانی چاہیے تھی لیکن ہوا اس کے برعکس ہے۔ مقبولیت نہ صرف برقرار ہے بلکہ بڑھی ہے۔ سرکار کے اندر رسائی رکھنے والوں میں سے بعض تک ہم عامیوں کی بھی رسائی ہے۔ اندر جن خبروں پر ’’تشویش‘‘ ہے وہ پہنچ ہی جاتی ہیں۔ ایک شاہی مدح نگار نے اڑھائی فیصد کی کٹوتی ازراہ احتیاط خود ہی کرلی۔ ایمانداراعظم کی مقبولیت جانچنا ہو تو کسی بھی گلی کوچے بازار محلے چوک چوپال کو نکل جائیں‘ ہاتھ کنگن کو آرسی مل جائے گا۔ ٭٭٭٭٭ کردار کشی سے یاد آیا جہاں سے مجرم اعظم کو نہ صادق نہ امین‘ سسلین مافیا اور ڈان ہونے کی سند جاری ہوئی تھی۔ شہزادہ جان عالم کو صادق و امین ہونے کی دستار بھی وہیں سے ملی تھی۔ تو ان صادق و امین جان عالم نے گزشتہ تین برسوںمیں تین ہزار تین سو تین مرتبہ یہ خطاب فرمایا کہ مجرم اعظم نے تین ہزار ارب روپے چوری کئے اور باہر لے گیا۔ وعدہ تھا کہ آتے ہی یہ رقم واپس لائوں گا۔ یہ رقم واپس آئی؟ ایسا سوال تو کرنا ہی بے معنی ہے۔ اس سے زیادہ ’’بامعنی‘‘ سوال تو یہ ہے کہ یہ رقم کہاں لوٹی‘ کہاں لوٹی ‘ کب لوٹی کیسے لوٹی اور اب کہاں ہے کا پتہ چلنا چاہیے۔ کیا پتہ چلا؟ نہیں شاید اس لئے کہ تاریخ کا سب سے بڑے پروٹوکول کامزا لینے میں مصروف شہزادہ حضور یہ کام بھول گئے۔ کمال ہے تین ہزارارب روپے کی چوری بھول گئے؟ ٭٭٭٭٭ شاہی نجومی کا تذکرہ ابھی باقی ہے۔ ایک معاصر نے صرف ایک معاصر نے 19تاریخ (اسی مہینے کی)والی خبر چھاپی۔ خبر میں بتایا گیا کہ وزیر رملیات و جفریات ہولی فیملی ہسپتال پہنچے تو مریضوں‘ ان کے لواحقین اور دیگر موجود عوام نے ان کا ایسا ’’شاہانہ‘‘ استقبال کیا کہ علم غیب جاننے والے وزیر کو اس کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ وزیر اس شاندار استقبال سے وفو ر جذبات کا ایسا دورہ پڑا کہ دورہ چھوڑ کر بندوق کی گولی کی طرح واپس اپنی وزارت گاہ جا پہنچے اور خوشی کا یہ عالم تھا کہ میٹ دی پریس پروگرام پر بھی لات ماری۔ بلند ہونے والے نعروں میں صرف انہی کی نہیں‘ ان کے تبدیلی مآب قائد کی بھی بھر پور مدح سرائی کی گئی تھی۔ اس مدح کے شکرانے کے طور پر وزیر رملیات نے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کو معطل کر دیا حالانکہ معطل تو عوام کو کرنا چاہیے تھا کہ خوشی کا سبب وہ تھے نہ کہ ڈپٹی کمشنر۔ ٭٭٭٭٭ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے عمران خان کے اس بیان پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے جو انہوں نے جہاد کشمیر پر دیا تھا۔ فرمایا کہ یہ بیان خاں صاحب نے ٹرمپ اور مودی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے دیا۔ خاں صاحب نے فرمایا تھا کہ جوبھی کشمیر جا کر لڑے گا‘ وہ پاکستان کا دشمن ہو گا۔ تلک الایام۔ سال بھر پہلے ہی وہ دن تھے کہ جو کشمیر جا کر لڑنے پر تنقید کرتا تھا۔ اسے ملک دشمن اورمودی کا یار کہا جاتا تھا۔ جو ’’احتیاط ‘‘ کرنے کا مطالبہ کرتا اسے ڈان لیگ کا لاک لگا کر لاک اپ میں ڈال دیا جاتا اور کسی 180درجے کی یوٹرن والی تبدیلی آ گئی۔ خاں صاحب کا بیان ذرا بھی غلط نہیں ہے دلیل یہ ہے کہ ٹرمپ نے بھی اس کی تعریف کی ہے۔ مودی بھی کرتے لیکن ان کے حصے کی تعریف بھی ٹرمپ نے کر دی۔ کافی ہے۔ ٹرمپ کے پائوں میں سب کا پائوں‘ مودی کا بھی‘ ہمارا بھی‘ سراج الحق ایسی تنقیدات چھوڑی ہیں ‘ ہزار دانے کی تسبیح پکڑیں‘ منہ چنیوٹ کے اطراف کی طرف کریں اور یہ وظیفہ کریں: اے دوستو جہادکا اب چھوڑ دو خیال نیز وزیر اعظم کی امریکہ سے واپسی پر ان کا شاندار استقبال کرنے کی تیاری فرمائیں۔ وہ ایک اور ورلڈ کپ جیت کر لانے والے ہیں۔ بس آتے ہی ہوں گے ع اس ٹرمپو کے سائے تلے ہم ایک ہیں بس ایک ہیں