ہرے رنگ اور سرخ چونک والے طوطے ہمارے پڑوس سے نقل مکانی کر گئے۔ ہم نے ان کے گھر‘ پرانے درختوں کے جھنڈ کاٹ دیے، سوچنے کی بات ہے جب انسان کو لکڑی بطور ایندھن درکار تھی‘ درخت عام تھے۔ جب بجلی اور گیس کے چولہے آ گئے تو درخت غائب ہونا شروع ہو گئے۔ طوطے ہمیشہ پرانے درختوں کی کھو میں رہتے ہیں۔ اپنے اردگرد دیکھوں تو سب درخت اور پودے ٹیڈی قامت کے ہیں۔ بالشت سے موٹا کسی کاتنا نہیں۔ کہاں وہ گھنی محبتوں والے پیڑ جن کو جپھی ڈالیں تو بازو ان کے وجود کو بھر نہ پاتے۔ طوطے ‘ ہدہد اور نیل کنٹھ ہماری بستیوں اور آبادیوں کو چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے ساتھ قدرت کا وہ توازن بھی رخصت ہوا جو ان اڑتے ہوئے معجزوں نے بنا رکھا تھا۔ اب وہ نسل ختم ہو رہی ہے جو اپنے بچوں کو بتا سکے کہ جس امرود کو طوطے نے کاٹا ہو وہ شرطیہ میٹھا ہوتا ہے۔وہ نسل جس کی عمر چالیس سال سے اوپر ہو چکی ہے دنیا میں رونما بہت سی تبدیلیوں کی گواہ ہے۔ ہم سے پہلی نسل شہروں کو پھیلتا دیکھ چکی‘ بڑی بڑی عمارتیں اور شاہراہیں ان کے سامنے تعمیر ہوئیں۔ جنگل ان کے دیکھتے دیکھتے چٹیل میدان بنے اور چٹیل میدان ہائوسنگ سکیموں میں تبدیل ہو گئے۔ ہم نے بچپن سے پڑھا کہ ماحولیاتی تبدیلیاں سنگین صورت اختیار کر رہی ہیں۔ انسان فطرت کی ان مشینوں کے ساتھ چھیڑ خانی کر رہا ہے جو زندگی کی ضمانت ہیں۔ سب سے بڑی مشین یہ زمین ہے۔ ہر روز اس میں سے اربوں بیج پھوٹتے ہیں۔ یہ ہر بیج کو انسانی منافع میں تبدیل کر سکتی ہے۔ دوسری مشین آکسیجن ہے جو ہوا اور پانی میں گھلی ہوئی ہے انسان اسے تیزی سے جلا رہا ہے۔ سانس لینے سے یہ ختم نہیں ہو سکتی۔ ہم ایسی صنعتیں لگا رہے ہیں جو ہوا اور پانی کو آلودہ کر کے آکسیجن کی مقدار کم کر رہی ہیں۔ تیسری مشین کسی علاقے کے پرندے‘ کیڑے مکوڑے، جانور اور درخت ہوتے ہیں۔بائیو ڈیٹا کا لفظ تو ہر اس شخص نے سن اور پڑھ رکھا ہے جو نوکری کے لئے درخواست دے چکا ہے یا پھر سائنسی تفصیلات سے کچھ واقفیت رکھتا ہے۔ بائیو ڈیٹا وہ خوردبینی کیڑے ہیں جو مٹی کو زندہ رکھتے ہیں۔ اگر کسی مٹی میں بائیو ڈیٹا مر جائیں تو اس میں سے کوئی بیج پھوٹتا ہے نہ فصل ہوتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہیں جیسے دہی کے مفید جراثیم۔پرندوں کی تعداد پر تحقیق کرنے والے ادارے مسلسل بتا رہے ہیں کہ مردار خور پرندے گدھ کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ گدھ کو فطرت کا خاکروب کہتے ہیں۔ یہ کھلی جگہ پر پڑے مردار کھاتا ہے۔ وہ ایسا نہ کرے تو ان مرداروں کے جسم میں بننے والے کئی جراثیم انسانوں کے لئے خطرات پیدا کر سکتے ہیں۔ آبادیوں میں سانپ تقریباً ختم ہو گئے ہیں۔ انکے نہ ہونے کا سب سے بڑا فائدہ چوہوں کو ہوا۔ بڑے شہروں کے تاریک سیوریج سسٹم پائپوں اور گھروں تک بڑے بڑے چوہے بے خوف پھرتے ہیں۔ چار سال قبل پشاور میں چوہوں کو مارنے کیلئے حکومت نے شہریوں کیلئے معاوضے کا اعلان کیا۔ چین کا سچا واقعہ ہے، ساٹھ ستر سال پہلے مطالعہ کیا گیا کہ ہر فصل جب تیار ہوتی ہے تو چڑیاں اسے کھانے آ جاتی ہیں۔ تحقیق سے پتا چلایا گیا کہ سالانہ 1ہزار ٹن اناج چڑیاں کھا جاتی ہیں۔ حکومت نے اعلان کیا کہ چڑیوں کو بھگا دیا جائے یا پکڑ لیا جائے۔ دیہات‘ قصبوں اور شہروں کی سطح پر تنظیمیں بن گئیں‘ لوگوں میں عزم اور جوش پیدا کرنے کے لئے ترانے لکھے گئے۔ زیادہ چڑیاں مارنے والوں کے لئے انعامات کا اعلان کیا گیا۔ جلد ہی یہ ایک قومی مہم بن گئی۔ نوبت یہ آ گئی کہ چڑیاں دکھائی نہ دیتیں۔ اگلے سال فصل پکی اور پیداوار کا تخمینہ لگایا گیا تو معلوم ہوا کیڑے مکوڑوں کی وجہ سے 10ہزار ٹن پیداوار کم رہی۔ چڑیاں ایک ہزار ٹن اناج کھا کر دس ہزار ٹن کی حفاظت کر رہی تھیں۔ حکومت نے ایک نئی مہم شروع کی۔ اردگرد سے چڑیاں پکڑ کر واپس ان علاقوں میں چھوڑی گئیں‘ ان کی خاص طور پر حفاظت کا انتظام کیا گیا۔ اگلے سال پھر اناج کی پیداوار بڑھ گئی۔کورونا کے باعث انسان گھروں میں مقید ہوا تو فطرت کے زخم بھرنے لگے۔ اوزون کی تہہ کے متعلق اچھی اطلاعات مل رہی ہیں۔ لاہور جو چند ماہ پہلے دنیا کے 10آلودہ ترین شہروں میں سے ایک تھا اب وہاں آلودگی برائے نام ہے۔ آسمان کی نیلاہٹ واپس آ گئی ہے‘ رات کو کھلے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائیں تو بجھے ہوئے لاکھوں قمقمے دوبارہ جل اٹھے معلوم ہوتے ہیں۔ دہلی‘ بنکاک‘ اسلام آباد‘ ٹورنٹو جیسے شہروں کے قریب رہنے والے جانور اور پرندے سکون کا احساس ہونے پر شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ کئی ستم ظریفوں نے تو ایسی فوٹو شاپ تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہیں کہ جانور انسان کو پنجرے میں بند دیکھ کر خوشگوار حیرت کا شکار ہیں۔ ان دنوں گلیوں اور سڑکوں پر پھرنے والے جانور بھی آرام سے ہیں۔ انہیں کوئی گاڑی کچل رہی ہے نہ کوئی انہیں پتھر مارتا ہے‘ وہ انسانوں کے شر سے محفوظ ہیں مگر توازن کی انہیں بھی ضرورت ہے‘ انہیں خوراک چاہیے جو انسان دے سکتا ہے۔فطرت اور ماحول میں توازن کے لئے ہمیں اپنی ضرورت اور خواہش میں فرق رکھنا ہو گا۔ پانی ہماری ضرورت ہے‘ شراب فقط خواہش۔ مٹھائی خواہش مگر پھل ضرورت۔ خوراک ضرورت ہے مگر ذائقوں کے پیچھے بڑی بڑی رقم خرچ کرنا خواہش۔ دوا ضرورت مگر منشیات ہماری خواہش۔ صحت ضرورت مگر ہم دولت کی طلب میں گرفتار۔ ہمیں امن چاہیے مگر ہم مزہ کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ بنیادی ضرورتیں تسلیم مگر چیزوں کی ملکیت چاہتے ہیں۔ ہمیں احترام ملنا چاہیے مگر ہم دنیا کی توجہ حاصل کرنے کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ ہم اعتماد کے بجائے انا کے قیدی ہیں‘ ہمیں دوستوں کی ضرورت ہے لیکن ہم دوسروں کو غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں‘ فطرت ہماری زندگی کے لئے ضروری ہے مگر ہم ٹیکنالوجی کی طلب میں گرفتار: تیرے رنگ دی قمیض سوانی تے ٹاہلی اتے بیٹھ طوطیا لیکن طوطے دکھائی تو دیں کہ میں ان کے رنگ کا لباس سلوا سکوں۔