آرمی ایکٹ میں ترمیم کا معاملہ کئی ہفتوں سے سیاسی اضطراب کا باعث بنا ہوا تھا۔ سپریم کورٹ کے الیونتھ ہاور پر اس معاملے پر دائر درخواست کو ؤسننے کی وجہ سے ہمارے کچھ دوستوںکے اندر خواہش پیدا ہوئی کہ عدالت کوئی ایسی رکاوٹ کھڑی کردے کہ یہ مدت یہیں پر ختم ہو جائے۔ لیکن سپریم کورٹ کے پاس اس تقرری اور توسیع کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ جو قانونی مسئلہ سپریم کورٹ کوتینوں مسلح افواج کے سربراہوں اور چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی مدت اور توسیع کے تعین کے حوالے سے نظر آیا اسکی جج صاحبان نے نشاندہی کر دی۔ اٹارنی جنرل کی یقین دہانی پر انہوں نے قانون سازی کیلئے چھ ماہ دیدئیے۔پارلیمانی اختیار اور عمل کے ذریعے یہ قانون سازی بھی ہو چکی ہے۔یہ اضطراب ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔ جب سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ترمیمی قانون سازی کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے، سوشل میڈیا پر آگ لگی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے عمائدین کو خاص طور پر ہر عام و خاص بے نقط سنا رہا ہے۔ حتیٰ کہ ان جماعتوں کے وہ ارکان جنہوں نے اس ترمیم کے حق میں ووٹ دیا وہ بھی اپنی ہی جماعت کے ارکان خصوصاً خواجہ آصف کو الزام دے رہے ہیں کہ انہوں نے مسلم لیگ(ن) کے ننھے منے بچوں کو ورغلا کر اس ترمیم کی حمایت کے لئے راضی کر لیا۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کو اگر خواجہ آصف قائل نہ کرتے تو وہ کبھی اپنے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پر سمجھوتہ نہ کرتے۔ایک در فنطنی یہ بھی چھوڑی جا رہی ہے کہ مریم نواز کو بھی خواجہ آصف نے دھوکہ میں رکھا اور باہر باہر فیصلہ کرا لیا۔اب جبکہ یہ ترمیم پاس ہو چکی ہے، اگلے چند دن میں مریم نوازبھی اپنے والد صاحب کی عیادت کے لئے لندن پہنچ جاتی ہیںتو اس سے انکے ترمیم کے مسئلے پر بے خبری یا دھوکے کے بارے میں حقیقت عیاں ہو جائے گی۔جہاں تک مسلم لیگ کے اندر بحث کا تعلق ہے تو اس سے کوئی خاطر خواہ سیاسی نقصان نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ ایک جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ وقتی ناراضگی ارکان کے درمیان ضرور ہو گی لیکن کسی بڑی لڑائی کی شکل اختیار نہیں کرے گی۔ اصل نقصان کاباعث میاں نواز شریف کا وہ رویہ ہے جو انہوں نے مشرف کے ساتھ ڈیل کرتے وقت روا رکھا کہ اپنی جماعت کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی اور ڈیل کر لی۔اب بھی یہی تاثر ہے کہ وہ کسی بھی پارٹی کے ساتھی کو یہ بتانے کو تیار نہیں ہیں کہ وہ اپنے علاج کے لئے باہر گئے ہیں یا اپنی مشکلات کا کوئی علاج کر کے باہر گئے ہیں۔ جتنا غصہ اور تنقید خواجہ آصف پر کی جا رہی ہے یہ در اصل میاں نواز شریف کی پر اصرار رخصتی اور پھر لندن سے بیٹھ کر آرمی ایکٹ میں ترمیم کی حمایت کی ہدایت بھیجنا ہے۔یہ ہدایت کیونکہ خواجہ آصف کی زبانی آئی ہے اس لئے تختہء مشق وہ بنے ہوئے ہیں۔میاں نواز شریف کے لئے کیا مشکل تھا کہ وہ فون پر اپنی پارلیمانی پارٹی سے خطاب کر کے اس بارے میں جو بھی انہوں نے فیصلہ کیا تھا ،بتاتے اور اسکے پس پردہ کارفرما حکمت کے بارے میں بھی آگاہ کرتے ۔یہ کوئی ایسا مشکل کام بھی نہیں تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر ہونے والی قانون سازی کے حوالے سے کوئی دلیل وہ نہ بنا پاتے۔بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ وہ کل کلاں اپنے سیاسی بیانیے کو دوبارہ شروع کرنے کی امید رکھتے ہیں اس لئے خواجہ آصف کی اوٹ لے رہے ہیں۔ہم ویسے ہی اپنے قائدین کی ایسی حرکتوں کو بھولنے کے ماہر ہیں اس لئے ہمیں دوبارہ بیوقوف بنانا کوئی مشکل نہیں ہو گا۔ایک بار پھر ہم سڑکوں پر’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ گاتے پھر رہے ہونگے۔ اصل مسئلہ میرے ان دوستوںکا ہے جو میاں صاحب کے انقلابی بیانیے پر دل و جان سے یقین کر بیٹھے اور سوشل میڈیا اور پارلیمنٹ کے ارد گرد تلملاتے پھرتے ہیں۔ انکا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے دھوپ والا چشمہ پہنا ہوا ہے اس لئے انہیں اندازہ نہیں ہو رہا کہ دھوپ کتنی تیز ہے۔اگر نظر کی عینک لگائی ہوتی تو ہماری طرح بہت پہلے سمجھ جاتے کہ اصل قصہ کیا ہے۔ اس میں میاں نواز شریف کا کیا قصور ہے۔ یہ ان لوگوں کی کج فہمی ہے جو میاں نواز شریف میں نیلسن منڈیلا ڈھونڈ رہے تھے۔ اگر انکو یاد ہو تو میاں نواز شریف نے موجودہ حکمرانوں کو چابی والے کھلونے قرار دیا تھا ۔ چابی والے کھلونے کے بارے میںپاکستان کی تاریخ بھری پڑی ہے۔میثاق جمہوریت لکھا گیا تو جمہوری حلقوں میں امید بندھی کہ ہماری قومی قیادت نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے اب وہ نہ تو جی پی ایس پر چلیں گے اور نہ ہی کوئی چابی دے کر اپنی تال پر انہیںنچا سکتا ہے لیکن یہ بھول گئے کہ ان چابی والے کھلونوں کا سافٹ وئیر جہاں سے تیار ہوا ہے یہ جیسے ہی انکی رینج میں آئینگے پھر سے اسی دھن پر ناچنا شروع کر دیں گے۔ میمو گیٹ میں سب نے دیکھا کہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں سیٹلائٹ کی مدد سے کون سا چابی والا کھلوناپیپلز پارٹی کی حکومت کو گرانے سپریم کورٹ جا پہنچا۔آصف علی زردار ی کو ملک دشمن اور امریکی ایجنٹ قرار دلانے کی بھرپور کوشش کی۔ پھر ووٹ کو عزت دو کی تحریک جو میاں نواز شریف نے شروع کی توخود ساختہ جمہوریت کے چیمپئن اسکی دھن پر سر دھننے لگے۔ انکا خیال نہیں بلکہ یقین تھا کہ کوئی دن جاتا ہے یہ بیانیہ سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔اس دوران میرے جیسے لوگوں نے ان تمام جذبات کی رو میں بہہ جانے والے صاحبان علم و دانش کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ، پاکستان کی سیاسی قیادت، خاص طور پر شریف خاندان کی سیاسی معاملہ فہمی کی ایک تاریخ ہے۔جو اس تاریخ سے باخبرہیں، جانتے ہیں کہ ایسے مواقع پر جب وہ اقتدار سے باہر اپنی جان اور مال بچانے کے مشن پر ہوتے ہیں کس قسم کی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔امید ہے شدید صدمے سے دوچار ہمارے دوست جلد صحتیاب ہو جائینگے۔