عام انتخابات کے موقع پر کئی قومی و صوبائی حلقے ایسے ہوتے ہیں جہاں کسی نہ کسی وجہ سے انتخاب ملتوی ہوجاتا ہے۔ کسی امیدوار کی ناگہانی موت، کسی امیدوار کے خلاف آنے والا عدالتی فیصلہ، الیکشن کے موقع پر متعلقہ حلقے میں کسی بڑے فساد یا پھر دھاندلی کی کسی بڑی شکایت سمیت کوئی بھی وجہ کسی بھی حلقے میں الیکشن کے التوا کا باعث بن جایا کرتی ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں ایسے حلقوں کی تعداد 41تھی جہاں عام انتخابات والے روز پولنگ نہیں ہوپائی تھی۔ ان حلقوں میں 22 اگست 2013ء کو ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ضمنی الیکشن ہوا تھا۔ تب قومی اسمبلی کے 15 جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے 26 حلقے تھے جہاں یہ انتخاب عمل میں آیا تھا۔ اس بار کے ضمنی انتخابات میں قومی کے گیارہ اور صوبائی اسمبلیوں کے 24 حلقے تھے جہاں گزشتہ روز ضمنی انتخابات ہوئے۔ یوں گویا 2013ء کے ضمنی انتخابات کا ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ضمنی انتخاب ہونے کا ریکارڈ بدستور قائم ہے۔ اس بار کے ضمنی انتخابات اس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کے حامل تھے کہ وہ عام انتخابات ہی ملکی تاریخ کے متنازع ترین انتخابات کا درجہ پا چکے ہیں جن کا یہ ضمنی تتمہ تھے۔ مگر الیکشن سے ایک روز قبل کی ایک اہم پریس کانفرنس شاید اسی بات کا اشارہ تھی کہ کم از کم یہ تتمہ متنازع نہیں رہے گا۔ چنانچہ کوئی شک نہیں کہ نون لیگ کو عام انتخابات میں جاتے ہوئے جس طرح کی صورتحال کا سامنا تھا وہ کم از کم ضمنی الیکشن کے موقع پر نہ تھی۔ پولنگ والا روز بھی ٹھیک ہی گزر گیا، کہیں سے کوئی ایسی شکایت نہیں آئی جس سے لگا ہو کہ عام انتخابات والے عزائم بدستور کار فرما ہیں۔ اور سب سے آخری چیز یہ کہ ان انتخابی نتائج پر بھی کسی جانب سے کوئی انگلی نہیں اٹھائی گئی جسے ضمنی انتخاب کے ضمنی نتائج کی طرح ضمنی خوبی ہی کہا جا سکتا ہے۔ 2013ء کے ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کی پانچ سیٹوں پر نون لیگ، تین پر پی پی پی اور دو پر پی ٹی آئی کامیاب ہوئی تھی۔ تب پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر بھی نون لیگ نے واضح برتری حاصل کی تھی۔ ان نتائج کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ عمران خان کی جانب سے خالی کردہ پشاور اور میانوالی کی دونوں ہی سیٹیں پی ٹی آئی ہار گئی تھی جو ان انتخابی نتائج کا سب سے بڑا دھچکا تھا۔ تب عمران خان اور ان کی جماعت نے یہ کہہ کر اپنا غم غلط کیا تھا کہ ضمنی انتخاب تو جیتتی ہی عام انتخابات کی فاتح جماعت ہے لہٰذا یہ نتائج حیران کن نہیں۔ بات کسی حد تک معقول بھی تھی سو قبول کرلی گئی۔ لیکن عمران خان کے وہم و گمان میں بھی نہ رہا ہوگا کہ یہی بیان 2018ء میں ان کے لئے نئی آزمائش لائے گا۔ اس بار پی ٹی آئی عام انتخابات کی فاتح ہے اور اس کے باوجود اس بار بھی عمران خان اپنی خالی کردہ دو سیٹیں نہیں بچا سکے۔ پی ٹی آئی خیبر پختون خوا میں جے یو آئی جبکہ پنجاب میں نون لیگ کی بڑی حریف سمجھی جاتی ہے۔ عمران خان کی خالی کردہ بنوں والی سیٹ جے یو آئی تو لاہور والی نون لیگ لے اڑی ہے۔ تحریک انصاف کے لئے جھٹکا صرف خان صاحب کی یہ دو سیٹیں ہی نہیں رہیں بلکہ اسے تین کرارے جھٹکے مزید بھی سہنے پڑے ہیں۔ ان تین میں سے پہلا جھٹکا یہ کہ 2013ء کے ضمنی الیکشن میں کے پی کے کی کسی بھی قومی یا صوبائی سیٹ پر نون لیگ نے سرے سے امیدوار ہی کھڑا نہیں کیا تھا جبکہ اس بار کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر اعلیٰ محمود خان کے آبائی حلقے سوات کی قومی اسمبلی کی سیٹ نون لیگ نکال لے گئی ہے۔ نون نے دوسرا جھٹکا پی ٹی آئی کو وزیر اعلی پنجاب کے آبائی علاقے میں دیا ہے جہاں سے اس کی خالی کردہ صوبائی سیٹ نون لیگ کے اویس لغاری لے اڑے ہیں۔ جبکہ تیسرا جھٹکا وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی خالی کردہ صوبائی سیٹ کی صورت ہے جو نون لیگ کے ہاتھ لگ چکی۔ عام تصور بھی یہی ہے کہ ضمنی انتخاب عام انتخاب جیتنے والی جماعت ہی جیتتی ہے جبکہ اس حوالے سے خود جناب عمران خان کا تو 2013ء کے ضمنی انتخابات کے نتائج پر اسی نوعیت کا بیان بھی محفوظ ہے۔ لہٰذا یہ سوال بے پناہ اہم ہوجاتا ہے کہ اس بار حکمران جماعت ضمنی الیکشن کیوں نہ جیت سکی ؟ پنجاب میں نون لیگ کو قومی میں اس پر برتری حاصل رہی تو صوبائی حلقوں پر مقابلہ برابر کا رہا ہے۔ ملکی تاریخ کی اس انوکھی حکومت کے لئے وجوہات بھی انوکھی ہی ڈھونڈنی پڑیں گی۔ اس ضمن میں اپنی عقل پر تکیہ کرنے کے بجائے میں نے ایک درویش سے رجوع کیا۔ خوش فہم درویش نے اس کی تین وجوہات بتائیں۔ پہلی یہ کہ لوگ بہت پر امید تھے بھینسوں کی نیلامی سے دودھ اور گاڑیوں کی نیلامی سے پٹرول کی قیمتیں کم ہوجائیں گی جس سے خوشحالی آجائے گی مگر نہ جانے کیوں ایسا کوئی کرشمہ ہوا نہیں جس سے مایوسی پھیل گئی۔ دوسری وجہ یہ کہ لوگوں کا خیال تھا کہ وزارت عظمیٰ کے حلف کے اگلے روز خان صاحب مراد سعید کو بھیج کر بیرون ملک سے لوٹے ہوئے 200 ارب ڈالر لا کر قرض خواہوں کے منہ پر دے ماریں گے۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ خان صاحب کو مراد سعید کی مصروفیات کے سبب لوٹے ہوئے دو سو ارب واپس لانے کے بجائے اسد عمر کو بھیج کر آئی ایم ایف سے 15 ڈالر قرض مانگنے پڑے تو مایوسی مزید بڑھ گئی۔ ضمنی الیکشن میں جھٹکے کی تیسری وجہ درویش یہ بتاتا ہے کہ لوگوں کو یقین تھا کہ جن و انس کی مدد سے تاریخ میں پہلی بار چندے سے ریاست چلانے کی کرامت ظاہر ہوگی۔ جس کے لئے ایک خوش فہم کالم نگار کے بقول پہلے تھوڑا تھوڑا اور پھر بہت سارا چندہ آنا تھا لیکن جب چندے سے ریاست چلانا تو درکنار، ڈیم بنانا بھی ناممکن نظر آیا تو مایوسی مزید بڑھ گئی۔