پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں قومی اسمبلی اور صوبائی حلقوں کی دو دو نشستوں پر ضمنی انتخابات کے لئے ووٹنگ کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے۔ این اے 45کرم سے تحریک انصاف کے امیدوار نے جمعیت علماء اسلام کے امیدوار کو ہرا کر پارٹی کو قومی اسمبلی میں مزید ایک نشست دی ہے جبکہ نوشہرہ سے پی کے 63کی صوبائی نشست، جو تحریک انصاف کی تھی وہاں ،سے مسلم لیگ ن کے امیدوار اختیار ولی نے کامیابی حاصل کی ہے۔ سب سے زیادہ ہنگامہ این اے 75سیالکوٹ اور پی پی 51وزیر آباد کی نشستوں پر رہا۔ این اے 75 میں آنے والے علاقے ڈسکہ میں متعدد مقامات پر جھگڑوں اور فائرنگ کے واقعات ہوئے جن میں دو افراد مارے گئے۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے مقامی رہنمائوں نے ایک دوسرے پر الزامات عاید کئے ہیں۔ الیکشن کمشن نے این اے 75کے ووٹوں کی تفصیلی جانچ پڑتال کی خاطر نتیجہ روکنے کا اعلان کیا ہے۔ ضمنی انتخابات قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی ان نشستوں پر نئے اراکین کو منتخب کرنے کے لئے کرائے جاتے ہیں جو کسی رکن کی موت‘ استعفیٰ یا نااہلی کی وجہ سے الیکشن کمشن کی جانب سے خالی قرار دی جاتی ہیں‘ ضمنی انتخابات کی تاریخ عجیب و غریب رہی ہے۔ نوے کے عشرے میں لاہور کے حلقہ این اے 99کا انتخاب کسے یاد نہیں۔ مسلم لیگ ن صوبے میں برسر اقتدار تھی جبکہ مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ دونوں جماعتوں نے حلقے کے ووٹروں کو مائل کرنے کے لئے سرکاری فنڈز کا بے تحاشہ استعمال کیا۔ سرکاری وسائل استعمال کر کے نشست جیتنے کی یہ روایت تب سے پختہ ہو گئی۔ مسلم لیگ ن کے گزشتہ دور حکومت تک ایسے درجنوں ضمنی انتخابات ہوئے جہاں سرکاری جماعت کے امیدواروں نے ترقیاتی کاموں‘ نوکریوں اور دیگر ترغیبات کے ذریعے ووٹ حاصل کئے۔ دور کیوں جائیں تحریک انصاف کی جانب سے دھرنے کے بعد جب چار حلقے کھولے گئے تو اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے ووٹوں میں بے ضابطگی پائی گئی۔ دوبارہ انتخابات ہوئے تو ایک بار پھر پانی کی طرح سرکاری وسائل بہائے گئے۔ یہ مہنگا ترین ضمنی انتخاب قرار پایا۔ حالیہ ضمنی انتخابات کا ایک پہلو کم از کم اطمینان بخش ہے کہ برسر اقتدار جماعت پی ٹی آئی کی جانب سے سرکاری وسائل کا اس درجے استعمال دکھائی نہیں دیا جو قبل ازیں حکومتوں کا وطیرہ رہا ہے۔ جمہوریت کو اس لئے پسند کیا جاتا ہے کہ اس میں انتقال اقتدار کا عمل پرامن انداز سے وقوع پذیر ہوتا ہے‘ جن اقوام نے جمہوری ترقی کی ہے انہوں نے انتخابی عمل اور اس سے پیدا ہونے والے تنازعات کا سدباب کر رکھا ہے۔ انتخابات کرانے کا ذمہ دار ادارہ کیسے کام کرتا ہے اور اس کے اختیارات کیا ہیں‘ امیدوار کیا نہیں کر سکتے‘ اخراجات کس حد تک ہو سکتے ہیں اور انتخابی ضابطہ اخلاق پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے یہ سب کچھ طے کر لیا گیا ہے۔1973ء کے آئین کے تحت پاکستان میں الیکشن کمیشن کا ادارہ قائم کیا گیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ ادارہ عشروں سے کام کر رہا ہے لیکن ابھی تک اپنی حیثیت منوا نہیں سکا۔ ہر انتخاب کے موقع پر انتخابی خرابیوں اور کوتاہیوں سے انتخابی عمل کی ساکھ خراب ہوتی ہے لیکن الیکشن کمشن بے بسی ظاہر کرنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتا۔جمہوریت تشدد کا الٹ ہے۔ ڈسکہ اور سیالکوٹ کے دیگر علاقوں میں جمعہ کے روز جس طرح مسلح افراد نے قانون سے بے خوف ہو کر ہوائی فائرنگ کی اور لڑائی جھگڑے کے واقعات ہوئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انتخابی عمل کے لئے سازگار ماحول یقینی بنانے والے ادارے اور اہلکار اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ضمنی انتخابات کے دوران خرابی کا ایک دروازہ حلقے سے باہر کے رہنمائوں اور کارکنوں کی آمد اور سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہونا ہے۔ مقامی سیاسی کارکن ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ ان کے درمیان سیاسی اختلاف ہوتا ہے لیکن قرابت داری اور سماجی تعلقات برقرار رہتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں جب دوسرے علاقوں سے اپنے لوگوں کو بلاتی ہیں تو وہ جیت کے لئے ہر قانونی و غیر قانونی کام کر گزرتے ہیں۔ ڈسکہ میں جو دو سیاسی کارکن قتل ہوئے ان کے خاندان اور لواحقین پر اس وقت کیا بیت رہی ہے اس کا درد دوسرا کوئی نہیں جان سکتا۔ الیکشن کمشن کو آئندہ کے ضابطہ اخلاق طے کرتے وقت حلقے سے باہر کے لوگوں کی انتخابی سرگرمیوں میں شرکت پر پابندی لگانے پر غور کرنا چاہیے۔ ضمنی انتخابات میں دھاندلی اور تشدد شامل نہ ہو تو یہ حکومت کی کارکردگی کا ریفرنڈم بن جاتے ہیں۔تحریک انصاف کی حکومت کو مشکل فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ قرضوں کی واپسی‘ خطے میں بین الاقوامی طاقتوں کی بدلتی پالیسی‘ معاشی بحالی کے لئے جدوجہد اور سب سے بڑی بات سیاست کو بدعنوانی سے پاک کرنے کے اہداف نے پی ٹی آئی کی مقبولیت کو متاثر کیا ہے‘ مہنگائی ہر گھر کا معاملہ ہے‘ لوگوں کی شکایات کا ازالہ نہیں ہو رہا‘ یہ صورت حال یقینا تحریک انصاف کے لئے خوش آئند نہیں۔ ووٹوں کی شرح میں کمی بیشی یا کس کی نشست پر کون کامیاب ہوا یہ تجزیوں کے لئے اہم ہے لیکن ضمنی انتخابات میں مجموعی طور پر جو تصویر سامنے آئی وہ بتاتی ہے کہ جمہوری ادارے‘ انتخابی عمل اور سیاسی تربیت کے ضمن میں اصلاحات کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ حکومت کو خرابیوں کا انسداد کرنے کے ساتھ ساتھ عوام سے نچلی سطح پر رابطے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس اصلاحاتی عمل کو شروع نہ کیا گیا تو دھاندلی اور دھونس کا وہ کلچر موجود رہے گا جس سے نجات کا وعدہ کر کے تحریک انصاف اقتدار میں آئی ہے۔