پنجاب کے ضمنی انتخابات پی ٹی آئی اور ن لیگ دونوں کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔اس سے پہلے پی ٹی آئی بسیار کوشش کے بعد پنجاب اسمبلی میں اپنی پانچ عدد مخصوص نشستیں لینے میں کامیاب ہو چکی ہے۔اب 20ضمنی نشستوں کا معرکہ درپیش ہے۔حمزہ شہباز کو اپنی وزارت اعلیٰ برقرار رکھنے کے لئے ان بیس نشستوں میں سے کم از کم نو نشستیں حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ 186کا جادوئی ہندسہ حاصل کیا جا سکے پی ٹی آئی کو یہ ہندسہ حاصل کرنے کے لئے کم از کم 13نشستیں درکار ہیں۔ن لیگ کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان نشستوں پر پی ٹی آئی کے منحرف ہونے والے ارکان امیدوار ہیں اور ن لیگ کے دیرینہ کارکن اس حرکت پر رنجیدہ ہیں اور دل و جان سے ان کے لئے کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔پی ٹی آئی کے کارکن انہیں دیکھ کر لوٹا لوٹا کے نعرے لگاتے ہیں اور اخلاقی طور پر ان امیدواروں کی پوزیشن کافی متنازعہ ہے۔پٹرول اور ڈیزل کی غیر متناسب طور پر بڑھی ہوئی قیمتیں جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہیں۔بجلی کے نرخ تقریباً دو گنا ہو چکے ہیں اور امید کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی۔تیل کی بین الاقوامی قیمت 97ڈالر فی بیرل تک کم ہونے کے باوجود حکومت نے قیمت کم کرنے کا کوئی اشارہ ابھی تک نہیں دیا ہے۔غالباً حکومت آئی ایم ایف کے چنگل میں بری طرح جکڑی ہوئی ہے اور اس کے لئے آئی ایم ایف کی ہدایات سے انحراف ممکن نہیں ہے۔ان سب کمزوریوں کے باوجود ن لیگ پرامید ہے کہ وہ 12سے 15نشستیں حاصل کر لے گی۔ن لیگ انتخابات میں حصہ لینے کا ایک وسیع تجربہ رکھتی ہے۔پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے گر بھی وہ جانتے ہیں۔عمران خان کے برعکس وہ جس انتظامیہ سے اپنے حق میں کام لیتے ہیں۔پوری طرح اس کی پشت پناہی کرتے ہیں۔اس لئے انتظامیہ ان کے لئے خلوص اور دلجمعی سے کام کرتی ہے جبکہ عمران خان اپنے چار سالہ اقتدار میں انتظامیہ کا اعتماد نہ جیت سکے بلکہ عثمان بزدار جیسے نااہل اور نالائق وزیر اعلیٰ کی ایماء پر انتظامیہ اور پولیس کے پے درپے ٹرانسفر کرتے رہے اور ان اداروں کو تقریباً اپنا دشمن بنا لیا۔آج شاید انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہو لیکن انہوں نے اس کا اظہار کبھی نہیں کیا۔شاید وہ اب بھی بزدار کے سحر میں گرفتار ہیں اور عثمان بزدار پنجاب کی سیاست میں کہیں نظر نہیں آ رہے۔قانونی اداروں کو مطلوب ان کے بھائی ملک سے فرار ہو چکے ہیں اور ان سے جڑا ایک پراسرار کردار فرح گوگی بھی ملک سے باہر ہے اور متعدد اعلانات کے باوجود واپسی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ن لیگ کو میڈیا کے استعمال کا بھی ایک وسیع تجربہ حاصل ہے۔پاکستان کے میڈیا کا بڑا حصہ ن لیگ کے ساتھ ہے۔جبکہ عمران خان نے اپنے اقتدار میں میڈیا کو زچ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی وہ اب بھی میڈیا سے اپنے تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے نظر نہیں آتے بلکہ وقتاً فوقتاً میڈیا کو للکارتے نظر آتے ہیں۔عمران خان کے بیانیے کو جو مقبولیت آج حاصل ہے اگر میڈیا بھی ان کے ساتھ ہوتا تو وہ عمران خان کے امیج کو آسمان کی بلندیوں پر لے جاتے۔ن لیگ کی ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز اور وزیر اعظم شہباز شریف انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکتے۔اس کے باوجود حمزہ شہباز نے پنجاب میں سویونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والوں کو فری بجلی دینے کا جو اقدام دیا ہے وہ عوام کو متاثر کر رہا ہے۔اگرچہ الیکشن کمیشن نے 17جولائی تک اس اقدام کو کالعدم قرار دے دیا ہے لیکن جو فائدہ ن لیگ اس اقدام سے اٹھانا چاہتی تھی وہ پہلے ہی اٹھا چکی ہے۔سنجیدہ حلقے یہ بھی جانتے ہیں کہ سو یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں لیکن ہمدردی کا جو احساس حمزہ شہباز جگانا چاہتے تھے وہ اس میں کامیاب رہے ہیں۔محترمہ مریم نواز ن لیگ کی الیکشن مہم کی رہنمائی کر رہی ہیں۔لیکن موجودہ معاشی حالات نے انہیں بھی معذرت خواہانہ تقریریں کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔اب وہ شعلہ نوائی کی بجائے قسمیں کھاتی نظر آ تی ہیں کہ اگر انہیں پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کا فکر دامن گیر نہ ہوتا تو وہ مرکر بھی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں اس قدر نہ بڑھاتے اور یہ کہ وزیر اعظم نے دل پر پتھر رکھ کر اس اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ برا ہو الیکٹرانک میڈیا کا جو ان کی پرانی تقاریر سناتا رہتا ہے جو غالباً انہوں نے گزشتہ سال عید سے پہلے کی تھیں۔کہ 118روپے فی لیٹر پٹرول اگر لوگ خریدیں گے تو عید کیسے منائیں گے۔آج لوگ 250روپے لیٹر پٹرول خرید کر عید منا رہے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان کا مکمل انحصار عوامی مقبولیت پر ہے وہ دھڑا دھڑ جلسے کر رہے ہیں اور عوام کو لہو گرما رہے ہیں۔وہ ہر اس شخص کو للکار رہے ہیں جو ان کے راستے میں آ رہا ہے یا آنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔ان کے جلسے بھر پور ہیں اور ان کا بیانیہ مقبول ہے۔خاص طور پر ساہیوال کے جلسے میں موسلا دھار بارش کے باوجود ہزاروں افراد نے ان کی تقریر پانی اور کیچڑ میں کھڑے ہو کر سنی۔وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور جوش خطابت میں تمام حدیں پھلانگ جاتے ہیں۔وہی غلطیاں وہ دہرا رہے ہیں جس کی وجہ سے آج وہ اس حال کو پہنچے ہیں وہ بھول جاتے ہیں کہ سیاست کے میدان میں ہیں اور انہیں سیاست سے بھی کام لینا ہے۔ہر شخص اور ہر ادارے کو اپنے خلاف کھڑے کر لینا کسی طرح بھی حکمت نہیں کہلا سکتا۔ان کے غیر دانسمند اور جذباتی مشیروں نے انہیں ایک نہایت مشکل راستے پر ڈال دیا ہے جو ان کی اناپرستی کو مزید ہوا دیتے ہیں اور انہیں ضد کے پہاڑ کی آخری چوٹی پر کھڑا کر دیتے ہیں۔عمران خان چند ایسے غیر منتخب مشیروں کے نرغے میں ہیں جن کے اپنے بچے بھی ان کی بات نہیں مانتے اور جنہں نے اپنے تیس چالیس سالہ کیرئیر میں کبھی بھی پاکستانی دفاعی اداروں کے حق میں کلمہ خیر نہیں کہا یا لکھا۔اس ملک کے مسائل حکمت اور دانشمندی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ہر جلسے میں امریکہ کو للکارنا کہاں کی عقلمندی ہے۔وہ اکثر بھارت کی مثال دیتے ہیں کہ وہ امریکہ کا اتحادی ہوتے ہوئے روس سے تیل خرید رہا ہے۔کیا کسی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو امریکہ کے خلاف نعرے لگاتے سنا ہے۔وہ یہ سارا کام حکمت اور کامیاب سفارت کاری سے کر رہے ہیں۔ہمیں بھی حکمت اور سیاست کی زبان استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب کے ضمنی انتخابات پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔اگر پنجاب میں ن لیگ کی حکومت نہ رہی تو ان کے لئے مرکز میں حکومت کرنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ہر سیاسی جماعت اور ہر ادارے کا فرض ہے کہ یہ انتخابات پرامن ماحول میں ہوں اور اس قدر شفاف ہوں کہ اس کے نتائج سب کے لئے قابل قبول ہوں اور وطن عزیز کے لئے استحکام کا باعث بنیں نہ کہ انتشار کا پیش خیمہ ہوں۔