کبھی کبھی شب کی تاریکی میں میں اپنے ضمیر کی ڈوبتی نبض ٹٹولتا ہوں تاکہ محسوس کر سکوں کہ اس میں احساس کی کوئی رمق باقی ہے یا نہیں۔میں ہر روز ایسا کرتا ہوں‘ کیونکہ میرا ضمیر لمحہ بہ لمحہ دم توڑ رہا ہے۔ جب میں کسی فیشن ایبل ہوٹل سے کھانا کھا کر نکلتا ہوں تو میرے لئے گارڈ دروازہ کھولتا ہے‘ تو میں لمحے بھر کو ٹھٹھکتا اور سوچتا ہوں کہ اس کی مہینے بھر کی کمائی اتنی ہو گی جتنا میں نے اس ایک کھانے کا بل ادا کیا ہے۔ میں جلدی سے اس خیال کو جھٹک دیتا ہوں اس موقع پر میرے ضمیر کی ہلکی سی موت واقع ہو جاتی ہے۔ جب میں سبزی فروش سے سبزی خریدتا ہوں اور جب اس کا پیارا سا بیٹا ’’چھوٹو‘‘ مسکراتے ہوئے آلو تولتا ہے تو میرا دل ڈولتا ہے’’چھوٹو‘‘ کو تو بستے سمیت سکول میں ہونا چاہیے تھا۔ دل کی صدا پر گھبرا کر میں اپنا چہرہ موڑ لیتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ ضمیر کی تھوڑی سی اور موت واقع ہو گئی ہے۔ جب میں اپنے بچوں کے لئے قیمتی کھلونے خریدتا ہوں اور پھر گھر لوٹتا ہوں تو ٹریفک لائٹ پر پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس بچوں کو خالی پیٹ اور بھوکی نگاہوں سمیت معمولی کھولنے بیچتے دیکھتا ہوں۔ تو میرا دل لمحے بھر کو تڑپتا ہے میں ضمیر کو اچانک موت سے بچانے کے لئے بچوں سے خرید لیتا ہوں دو ایک کھلونے، مگر میں ضمیر کو مزید موت سے بچا نہیں پاتا۔ جب میری مریض خادمہ اپنی چھوٹی سی بچی کو سکول سے غیر حاضر کروا کے کام پر بھیجتی ہے تو میرے دل سے ہوک اٹھتی ہے۔ مجھے چاہیے کہ بچی کو کہوں کہ تو اپنے مدرسے جا مگر جب میں گندے برتنوں سے بھرے سنک کو دیکھتا ہوں تو میں دل کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ دو ہی دنوں کی تو بات ہے۔ مگر میرے دم توڑتے ضمیر پر ایک اور چوٹ لگتی ہے۔ جب میں کسی بچے کے ساتھ زیادتی یا اس کے قتل کی خبر سنتا ہوں تو بہت رنجیدہ ہوتا ہوں مگر دل ہی دل میں شکر ادا کرتا ہوں کہ یہ میرا بچہ نہیں۔ تب اس ظالمانہ سوچ پر مجھے ہمت نہیں ہوتی کہ آئینے میں اپنا چہرہ دیکھوں، اپنا سامنا کروں۔ تب آخری سانسیں لیتے ضمیر پر ایک آہنی ضرب لگتی ہے۔ تو ضمیر قریب المرگ ہو جاتا ہے۔ جب میں لوگوں کو ذات برادری اور مذہبی کی بنا پر ایک دوسرے کی جان کے درپے دیکھتا ہوں تو افسردگی و بے بسی مجھے نڈھال کر دیتی ہے تب میں خود کو بتاتا ہوں کہ میرے ملک کو کیا ہو گیا ہے تب میں کرپٹ سیاست دانوں کو ذمہ دار قرار دیتا ہوں اور خود کو بری الذمہ ٹھہراتا ہوں۔ یہ کاری ضرب میرے ضمیر کے لئے موت کا آخری سندیسہ محسوس ہوتی ہے۔ سو جب رات کی تاریکی میں میں اپنے ضمیر کی نبض ٹٹولتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ ابھی اس میں سانس باقی ہے تو حیرت میں ڈوب جاتا ہوں کہ میں تو روز اپنے ہاتھوں سے اپنے ضمیر کو قتل کرتا ہوں اور اس پر مٹی ڈال دیتا ہوں مگر ابھی تک یہ سانس لے رہا ہے۔(رام جیٹھ ملانی) امریکہ میں مقیم انگریزی کے پروفیسر اور عالمی ادب کا بہت اچھا ذوق رکھنے والے پروفیسر زبیر صدیقی نے یہ نظم مجھے ارسال کی تھی۔ پروفیسر صاحب دوست ہونے کے علاوہ میرے کالموں کے مستقل کاری بھی ہیں۔ انہیں انگریزی کی یہ نظم بہت پسند ہے ان کی خواہش تھی کہ میں اس نظم کا ترجمہ باقی قارئین سے شیئر کروں۔ پروفیسر صاحب کی خواہش کی تعمیل ہو گئی ہے۔ کاش میں اس ترجمہ کو شعری پیراہن زیب تن کر سکتا تو اس کی اثر انگیزی دوچند ہو جاتی۔ رام جیٹھ ملانی ہندوستان کی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے وہ 14ستمبر 1923ء کو شکار پور سندھ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے 8ستمبر 2019ء کو تقریباً 95برس کی عمر میں وفات پائی۔ رام جیٹھ نے صرف 17برس کی عمر میں سندھ سے ایل ایل بی کر لیا اور 18برس کی عمر میں وہیں شکار پور سے وکالت شروع کر دی تقسیم کے بعد وہ ممبئی منتقل ہو گئے وہ سپریم کورٹ کے بہت بڑے وکیل سمجھے جاتے تھے اور شاید وہ سب سے بھاری فیس وصول کرنے والے وکیل تھے۔ وہ وفات سے صرف دو سال پہلے تک بھر پور وکالت کرتے رہے ۔ وکالت کے علاوہ وہ بھارت کے صف اول کے سیاست دان بھی تھے۔ وہ بی جے پی کی طرف سے دوبارہ لوک سبھا اور ایک بار راجیہ سبھا کے رکن رہے۔ وہ اٹل بہاری واجپائی کی حکومت میں وزیر قانون و انصاف بھی رہ چکے ہیں۔ رام جیٹھ ملانی مصنف بھی تھے۔ خادم خلق بھی تھے اور بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ شاعر بھی تھے۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھی ہیں مگر ان کی کتاب big Ego,s Small Menپڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ سماجی اونچ نیچ ہی ان کے ضمیر کو کچوکے نہیں لگاتی تھی بلکہ سیاسی معاملات میں بھی ناانصافی کو کبھی وہ قبول نہ کرتے تھے۔ اپنی وفات سے پہلے رام جیٹھ ملانی نے زبردست حق گوئی سے کام لیا تاکہ ان کی آتما کو شانتی مل سکے۔ انہوں نے علی الاعلان کہا کہ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370جو جموں اور کشمیر کو ایک خاص مقام دیتا ہے وہ بنیادی بھارتی دستور کا جزو لاینفک ہے۔ اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق رام جیٹھ ملانی نے کہا کہ بھارتی دستورکا یہ حصہ اس وقت کی جموں اور کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کی خواہشات کا آئینہ دار ہے اور اسی اسمبلی کی قرار داد کے مطابق اسے بھارتی دستور کا مستقل حصہ بنایا گیا ہے۔ بھارتی حکومت کا 5اگست 2019ء کا اقدام غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔2014ء میں بھی رام جیٹھ ملانی نے کہا تھا کہ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370ایک فائنل آرٹیکل ہے اور کوئی اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ رام جیٹھ ملانی 2002ء میں بنائی گئی انڈین کشمیر کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ انتہا پسند ہندوئوں کی مخالفت کے باوجود رام جیٹھ نے حریت کانفرنس کے قائدین و مجاہدین سے رابطہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ 2004ء میں انہوں نے اٹل بہاری واجپائی اور ان کے ڈپٹی ایل کے ایڈوانی سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے اسی عرصے میں نوجوان کشمیریوں سے ملاقات کی۔ غالباً 2004ء ہی میں انہوں نے کشمیری رہنما شبیر شاہ سے بھی ملاقات کی تھی۔ شبیر شاہ نے سید علی گیلانی اور یاسین ملک کی بلاتاخیر رہائی کے مطالبے پر اصرار کیا۔ جیٹھانی نے اسے تسلیم کر لیا۔ جب جیٹھانی کی کوششیں ثمر بارہونے لگیں اور حریت کانفرنس کے رہنما بات چیت پر آمادہ نظر آنے لگے تو ایل کے ایڈوانی نے یک طرفہ پر گفتگو وشنید کی بساط لپیٹ دی۔ رام جیٹھ ملانی کو اس بات کا شدید قلق تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کشمیری ایک دلنواز اور ملنسار قوم ہیں۔ کشمیری قائدین نے انہیں یہ بات اچھی طرح سمجھا دی تھی کہ جب بھارت نے کہہ مکرنی کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے جب بھارتی حکومت اقوام متحدہ کی بات ماننے کو تیار ہے اور نہ ہی سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عملدرآمد کے لئے آمادہ ہے تو پھر بات چیت کیسے آگے بڑھے گی۔ 2014ء میں رام جیٹھ ملانی نے کہا تھا کہ میری دلی خواہش ہے کہ مسئلہ کشمیر کو عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ کشمیریوں کو ان کا حق دے کر مزاحمت کو محبت میں بدلنا چاہیے یہ مسئلہ بات چیت سے حل ہو سکتا ہے۔ رام جیٹھ ملانی انسانی جذبات و احساسات کا درد رکھتے تھے۔ مگر اس دوران نریندر مودی نے بھارتی سیاست کو ہندو سیاست میں بدل دیا۔ مودی مفاہمت و محبت کی سیاست پر نہیں شدت اورنفرت کی سیاست پریقین رکھتے ہیں۔ نفرت ‘ عداوت‘ نسلی تعصب اورمذہبی انتہا پسندی کی کالی آندھی میں رام جیٹھ ملانی جیسے لوگوں کے لئے عدل و انصاف کا چراغ جلانا بہت مشکل ہوتا۔ مگر مجھے یقین ہے کہ آج اگر رام جیٹھ ملانی زندہ ہوتے تو انہیں ان کا زندہ ضمیر چین نہ لینے دیتا اور وہ اپنے ضمیر کی بات کان لگا کر سنتے اور اپنی پیرانہ سالی اور خرابی صحت کے باوجود سپریم کورٹ اورعوامی عدالت میں کشمیر کا مقدمہ لڑتے اور مودی کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کو شکست فاش سے دوچارکرتے۔