معروف کمپیئر طارق عزیز ایک شخص نہیں ایک عہد کا نام ہے ، پی ٹی وی پر کم و بیش 40 سال راج کیا ۔ 1964 ء میں ایوب خان نے پی ٹی وی کا افتتاح کیا ، طارق عزیز پہلے اینکر تھے ، پہلے وقتوں میں صرف پی ٹی وی ہوتا تھا ، آج تو پرائیوٹ چینلوں کی بہار آئی ہوئی ہے اور ٹی وی اینکروں میں بڑے بڑے نام ہیں ، بھاری بھاری تنخواہیں بھی ہیں ، مگر طارق عزیز جیسی خوبی ، قابلیت اور صلاحیت کسی میں نظر نہیں آتی ۔ موجودہ اینکروں کو تہذیب، ثقافت اور زبان و ادب کا کوئی علم نہیں ، جنرل نالج میں سے بھی ان کی اوپر والی چھت خالی نظر آتی ہے ۔ طارق عزیز کو ہزاروں شعر یاد تھے اور وہ موقع محل کے مطابق خوبصورتی کے ساتھ شعر پڑھتے ، آج بڑے سے بڑے اینکرز کو دو چار شعر شاید یاد ہوں ۔ صدا کاری اور آواز کی دنیا میں طارق عزیز ایک درسگاہ کی حیثیت رکھتے تھے اور ان کی کمپیئرنگ آنے والے فنکاروں کی رہنمائی کرتی رہے گی ۔ میرے کالم کا عنوان ’’ طارق عزیز ملتان میں ‘‘کا مقصد یہ نہیں کہ وہ ملتان میں پیدا ہوئے یا ملتان میں رہتے تھے ، البتہ یہ حقیقت ہے کہ ان کا تعلق ملتان ڈویژن کے اہم ضلع ساہیوال سے تھا ، اس لحاظ سے ان کی ملتان اور سرائیکی وسیب سے ایک نسبت تھی ۔ ملتان کی چند یادیں ہیں ، پرویز مشرف دور میں بڑی مشکلوں اور مطالبات کے بعد ہم نے پی ٹی وی ملتان بنوا لیا ، ان دنوں طارق عزیز ملک کے بڑے شہروں میں پی ٹی وی کا مقبول شو طارق عزیز شو کر رہے تھے ، ہم نے پی ٹی وی کے چیئرمین کو لکھا کہ ملتان بھی پاکستان کا حصہ ہے اور اس کا شمار ملک کے بڑے شہروں میں ہے ، یہاں بھی ایک پروگرام ہونا چاہئے ، ہماری درخواست قبول کر لی گئی ، ملتان آرٹس کونسل میں ریکارڈنگ کا پروگرام بنا ، طارق عزیز ایک دن پہلے آ گئے ، طارق عزیز کی خواہش تھی کہ مجھے کوئی ایسا دوست ملوایا جائے جو ملتان کی تاریخ اور ثقافت بارے مجھے آگاہ کرے ۔ وہ ہوٹل میں رہائش پذیر تھے ، ملاقات ہوئی ، میں نے ان کو ملتان کے بارے میں بتایا ، طارق عزیز نے کہا کہ کوئی سرائیکی شعر ہو جائے ، میں نے خواجہ فرید کے کچھ شعر لکھوائے مگر ان کو ازبر نہ ہو سکے ۔ البتہ ان کا ملتان کا پروگرام بہت اعلیٰ اور معلوماتی ثابت ہوا ۔ 28 اپریل 1936ء کو جالندھر میں پیدا ہونے والے طارق عزیز زمانہ طالب علمی سے سمجھدار تھے ، وہ سیاسی سوجھ بوجھ اور بصیرت رکھتے تھے ، بائیں بازو کی سیکولر سوچ کے مالک تھے ، وہ ذوالفقار علی بھٹو کے شیدائی تھے ، بھٹو بر سر اقتدار آئے تو وہ وزارت اطلاعات کی اعانت سے بھٹو پرفلم بنانا چاہتے تھے ، فلم کا منصوبہ تیار ہو گیا ، مگر اس وقت کے وزیر اطلاعات مولانا کوثر نیازی وزارت اطلاعات سے فنڈز فراہم کرنے پر تیار نہ ہوئے ۔ جس کی بناء پر وہ مولانا کوثر نیازی کو سخت ناپسند کرتے تھے اور گفتگو کے دوران یہ بھی کہتے کہ میانوالی کا نیازی مولوی اندر سے پیپلز پارٹی اور بھٹو کا مخالف ہے ۔ اس طرح وہ پیپلز پارٹی سے دور ہوتے گئے ، مگر یہ بھی اتفاق دیکھئے کہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والا طارق عزیز دائیں بازو کے جنرل ضیا الحق کے بر سر اقتدار آنے پر ان کے بہت قریب ہو گئے ۔ طارق عزیز کے پاس بہت بڑا علم تھا ، اس کے باوجود کہ انہوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس نہیں کیا تھا مگر وہ بہت کچھ جانتے تھے اور علم کی اس خیرات کو انہوں نے پی ٹی وی کے ذریعے طالب علموں تک خوب پہنچایا ۔ آج ہم یونیورسٹیوں کو دیکھتے ہیں تو ما شا اللہ اساتذہ کی بھاری تنخواہیں ہیں مگر وہ طالب علموں کو کچھ نہیں پڑھاتے ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس ڈگریاں تو ہوں اور علم نہ ہو ، جب علم نہیں ہوگا تو کیا پڑھائیں گے ۔ ان کے مقابلے میں طارق عزیز نے طالب علموں کی بہت مدد کی ، وہ نیلام گھر میں ذہنی ازمائش کا مقابلہ کراتے ، جس میں تحریک پاکستان ، قائد اعظم ، قرارداد پاکستان ، اسلام اور پاکستان ، اصناف شعر و سخن ، غزل ، نظم ، قصیدہ ، مرثیہ ، مثنوی ، رباعی ، کافی کے سوالات کے ساتھ ساتھ بیت بازی کا بھی مقابلہ کرتے ۔ عالمی سطح پر انسانی تہذیب، دنیا کا رقبہ ، مختلف ممالک کے سکے ، اقوام متحدہ ، عالمی عدالت، نوبل انعام ، دریائے سندھ ، دنیا کے تین صحرا ، سات عجائبات ، دنیا کی بڑی لائبریروں وغیرہ کے بارے میں سوالات کرتے ۔ جس سے ہم جیسے طالب علموں کو بہت فائدہ ہوتا ۔ ان کا پروگرام مقبول ترین پروگرام تھا ، آج ہم بوڑھے ہو گئے ، اس کے باوجود طارق عزیز کے پروگراموں کو یاد کرتے ہیں ۔ خوبیاں خامیاں ہر انسان میں ہوتی ہیں ،اگر خوبیاں زیادہ ہوں تو آدمی کا شمار اس کی خوبیوں کے حوالے سے ہوتاہے ، یہ ٹھیک ہے کہ طارق عزیز سیاست میں آنے اور ایم این اے بننے کے باوجود غریبوں کی بہتری کیلئے کچھ نہ کر سکے ۔ محروم اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کیلئے ان کا کردار سامنے نہ آ سکا ۔ شاید اس کی وجہ جماعتوں کے سربراہوں کی پالیسیاں بھی ہوں ، البتہ سپریم کورٹ پر ن لیگ کے دوسرے رہنماؤں کے ساتھ حملہ انکی زندگی کی بد ترین غلطی تھی اور اس کے نتیجے میں وہ سیاست سے زندگی بھر کیلئے نا اہل ٹھہرے اور وہ اپنی اس غلطی پر ساری زندگی پچھتاتے رہے اور جن کی خوشنودی کیلئے انہوں نے یہ قدم اٹھایا ، انہوں نے بعد میں طارق عزیز کو پوچھا تک نہیں ۔ وہ لا ولد تھے ، لیکن یہ بھی ان کی عظمت ہے کہ انہوں نے اپنا اثاثہ پاکستان کیلئے وقف کر دیا ۔ طارق عزیز پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں رہے ، کیا پی پی اور ن لیگ کی قیادت ان کی تقلید کرے گی ؟ پنجاب اسمبلی کی رکن مومنہ وحید نے صوبائی اسمبلی میں قرارداد جمع کرائی ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ طارق عزیز کی عظیم قومی و ملی خدمات پر ان کو سول ایوارڈ سے نوازا جائے ۔ طارق عزیز کو 1992 ء میں صدارتی ایوارڈ مل چکا ہے ، ان کا اصل ایوارڈ ان کی وطن سے محبت ہے اور یہ بات بھی کسی ایوارڈ سے کم نہیں کہ ان کے والد میاں عبدالعزیز قیام پاکستان سے پہلے خود کو پاکستانی لکھتے تھے ۔ 17 جون 2020ء طارق عزیز کی وفات کا دن دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کوہمیشہ یاد رہے گا ۔