بالآخر امریکہ بہادر اورطالبان کے درمیان معاہدہ طے پا گیا اور پاکستان کی پوزیشن تسلیم کر لی گئی جو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور سے تھی کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں بلکہ مذاکرات سے حل نکلے گا۔ اس وقت جنرل مشرف کوڈبل گیم کا طعنہ دیا جاتا رہا اور انکی رخصتی میں امریکہ کے اس خود ساختہ قائم کردہ تصور نے بہت کردار ادا کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ امریکہ کو ادراک ہوتا چلا گیا کہ کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی وہ با عزت طریقے سے افغانستان سے نہیں نکل پائے گا۔اگرچہ صدر اوباما نے آتے ہی دعویٰ کیا کہ وہ گوانتا نامو بے جیل بند کرینگے اور امریکی فوجی بھی افغانستان سے واپس بلائے جائینگے۔لیکن بوجوہ وہ اس مشن میں کامیاب نہ ہو پائے بلکہ افغانستان میں فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرنا پڑا۔پھر صدر ٹرمپ نے عہدہ سنبھالا۔ انکی الیکشن مہم میں امریکی فوجیوں کو وطن واپس لانا سب سے اہم ایجنڈا تھا۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بار بار کہا کہ ہم کیوں دوسروں کی جنگ لڑ رہے ہیں یہاں تک کہ انہوں نے شام میں لڑنے والے باغیوں کو سپورٹ کرنے پر بھی لے دے کی اورامریکہ کی طرف سے آئی ایس ایس کی سپورٹ کا بھی اشارہ دیا کہ کیوں ہم اربوں ڈالر جنگوں اور ایسے لوگوں کو مدد دینے کے لئے ضائع کر رہے ہیں۔بحر حال انکے آنے سے پہلے ہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا لیکن اس میںبہت سی اونچ نیچ آئی جس سے بظاہر یہ دکھائی دیتا تھا کہ امریکہ مذاکرات کی بات تو کر رہا ہے لیکن سنجیدہ نہیں ہے اسکے عزائم کچھ اور ہیں اسکی وجہ دو واقعات تھے جو مختلف وقت میں رونما ہوئے۔ دونوں مواقع پر طالبان کے ساتھ مذاکرات سے کچھ پہلے اسکو سبو تاژ کر دیا گیا۔ پہلی دفعہ جب مری میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے تمام متعلقہ فریق پہنچ چکے تھے تو ایک رات قبل تین سال پہلے فوت ہوئے تحریک طالبان کے بانی ملاّ عمر کی موت کا اعلان کر دیا گیا جس سے ان مذاکرات کا آغاز ہی نہ ہو پایا۔ دوسری دفعہ جب مذاکرات کی صورت بنی تو بلوچستان میں ایران کے بارڈر کے قریب انکے نئے امیر ملاّ اختر منصور کو امریکی ڈرون نے نشانے پر دھر لیا۔اس پس منظر میں پاکستان کا مذاکرات کے لئے حامی بھرنا یقیناً اس اخلاص کو ظاہر کرتاتھا کہ تمام تر تحفظات اور اس قسم کے تجربات کے باوجود وہ ایسے ہر موقع پر بین الاقوامی سطح پر اپنی خدمات دینے کو تیار ہے جس سے پڑوسی اور برادر ملک افغانستان میں امن آ سکے۔اس سلسلے میں پاکستانی حکومت، دفتر خارجہ ا ور خصوصاً وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تعریف کے مستحق ہیں کہ انہوں انتہائی نا مساعد حالات میں اس کام کا بیڑا اٹھایا اور تمام سٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوئے۔جہاں پر بزرگ اور نئے طالبان کے درمیان ان مذاکرات کے حوالے سے بحث پورے شدّومد سے جاری رہی وہیں ایران کے تحفظات کے حوالے سے بھی بہت کام کیا گیا۔ ایران شاکی تھا کہ افغانستان کے اندر جو داعش ہے وہ ویسی ہی ہے جو شام کے اندر موجود ہے اور اسکی ڈوریاں امریکہ سے ہلتی ہیں۔افغانستان میں اسکی موجودگی کا مقصد ایران کو نشانہ بنانا ہے۔اسی طرح سے قطر جہاں پر طالبان کا دفتر کھلا اور مذاکرات کا آغاز ہوا وہ بھی حالیہ مذاکرات میں اپنے کردار کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کر رہا تھا۔پاکستان نے ان دونوں برادر ممالک کو اعتماد میں لیا اور انکے شکوک و شبہات دور کئے ۔اسی طرح طالبان جو افغان حکومت سے براہ راست مذاکرات پر تیار نہیں تھے انکو بھی راضی کیا گیا کہ وہ معاہدے کی صورت میں افغان حکومت سے مذاکرات کریں۔ اس بار جب مذاکرات شروع ہوئے ہیں تو اس دوران ایسا کوئی کام نہیں ہوا جس سے ان میں تعطل پیدا ہو سکتا ۔ امریکہ کی طرف سے بھی مذاکرات کی پیش رفت اور متوقع نتائج کے حوالے سے مثبت باتیں سننے میں آتی ر ہیں۔ معاہدہ طے پا گیا اب اس معاہد ے پرعملدرآمد کا مشکل مرحلہ درپیش ہے۔ اشرف غنی کے صدارتی انتخاب پر پہلے ہی افغانستان کی سیاسی قیادت کے اندر بہت تحفظات ہیں اور بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ یہ مسئلہ ایک بڑی سیاسی جنگ کی طرف جائے گا جو کہ اس معاہدے کے بعد امریکہ کی خواہش بھی ہو گی کہ افغانستان کے اندر لڑائی اصلی گولہ باری کی بجائے لفظی گولہ باری کی طرف چل پڑے۔ سیاسی تحریک کے نتیجے میں کئی ماہ صرف ہو سکتے ہیں اور مسلح جد و جہد کی بجائے سیاسی جدو جہد کی بنیاد پڑ جائے تو اس سے بہتر کیا ہو گا۔ بھلے اسکے نتیجے میں اشرف غنی کی قربانی دینا پڑے۔ اسی دوران امریکہ کے انتخابات بھی مکمل ہو جائینگے جس میں اس معاہدے کے بعد صدر ٹرمپ کے دوبارہ جیتنے کے امکانات بہت بڑھ گئے ہیں۔اگلے سال فروری میں امریکہ کی افغانستان کے بارے میں پالیسی کا اصل چہرہ دیکھنے کو ملے گا کیونکہ یہ صدر ٹرمپ کی دوسری ہی نہیں آخری ٹرم ہو گی۔ سابق امریکی سفارتکار رابن رافیل نے بہت پہلے بتا دیا تھا کہ طالبان سے کامیاب مزاکرات کے بعد امریکہ کس طرح افغانستان میں اپنی موجودگی کو جواز دے گا ۔ انکا کہنا تھا کہ امریکہ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرے کہ افغانستان مستقبل میں دہشت گردوں کی آماجگاہ نہیں بنے گا جہاں سے امریکہ پر کسی بڑے حملے کی منصوبہ بندی کی جا سکے امریکہ یہ جائزہ بھی لے رہا ہے کہ انخلاء کے بعد طالبان دوسرے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ مل کر طاقت نہ پکڑ لیں۔ گویااس بات کا فیصلہ امریکہ نے کرنا ہے کب افغانستان اس قابل ہو گا کہ وہ دہشت گردوں کی آماجگاہ بننے کی اہلیت کھو دے تو اسکا مطلب تو پھر نا ہی سمجھیں۔ نہ امریکہ بہادر مطمئن ہو گا نہ وہ یہاں سے جائے گا۔اگر امریکہ ہر طرح سے مطمئن بھی ہو جاتا ہے، تو پھر بھی اسکی طرف سے مکمل انخلاء کا کوئی امکان نہیں کیونکہ وہ خطے میں روس اور چین کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لئے تو اٹھارہ سال پہلے یہاں آیا تھا ۔